محمد انور حسین
’’صبح کے دس بج رہےہیں ہمارے نوجوان رضائی سے باہر نکل کر سستارہے ہیں ۔رات کے گیارہ بج رہے ہیں اور گھر کی عورتیں ٹی وی سیریل کے مزے لے رہی ہیں۔آدھی رات بیت چکی ہے، نوجوان بچے گلی کوچوں کے چبوتروں پر موبائل میں مصروف ہیں۔ تہجد کا وقت ہے، لوگ شادی خانوں سے لوٹ رہے ہیں۔شام کا وقت ہے، عورتیں شاپنگ مالس میں تھیلیاں بھر بھر کےخریداری کر رہی ہیں۔ اکثر گھروں سے ساس بہو اور میاں بیوی کے لڑنے کی آوازیں آرہی ہیں ۔‘‘
یہ کسی پراسرار فلم کی کہانی نہیں بلکہ ہمارے خاندانوں کے روزانہ کے معمولات ہیں اور ہمارے خاندان اب اس سرحد تک آگئے ہیں جہاں سے آگے کا راستہ تباہی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ وقت رہتے اگر اپنے حدود میں آجائیں تو معاشرہ ایک بڑی تباہی سے بچ جاے گا۔
دنیا میں اصلاح کی جتنی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں وہ اجتماعی جدوجہد، اجتماعی بیداری اور اجتماعی ماحول سازی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اصلاح در اصل خرابی کی ضد ہے۔اصلاح کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب یہ احساس ہونے لگے کہ رائج رویوں میں خرابی موجود ہے کیونکہ ہمارے خاندانی نظام میں بہت ساری روایتیں ایسی شامل ہوگئی ہیں جن کے تعلق سے برے ہونے کا احساس بھی باقی نہیں رہا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بہ حیثیت افرادِ تحریک بھی اور بہ حیثیت مسلم امت کے فرد بھی، اپنے گھر اور خاندان میںرائج اقدار و روایات اور رویوں کا احتساب کرنا چاہیے اور اپنے خاندان کو ان اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو قرآن و سنت ہمیں بتاتے ہیں۔ احتساب اصلاح کی فکر بھی دیتا ہے اور عملی کوشش کی طرف قدم بڑھانے کا حوصلہ بھی۔
اصلاح کی شروعات خاندانی نظام کو مضبوط کرنے والے اعمال اور رویوں کی ابتداء سے ہو سکتی ہے۔ اصلاح کس طرح ہو اور کن بنیادوں پر ہو یہ ایک اہم سوال ہے لیکن اس کا جواب بھی اتناہی آسان ہے کہ ہمارے لیے وہی راستہ سب سے درست ہے جو خالق کائنات نے ہمارے لیے تجویز کیا ہے ورنہ خاندانی اصلاح کے نام پر مغرب نے ایسے نظریات پیش کیے کہ خاندان کا نام و نشان ہی ان کے معاشرے سے مٹتا نظر آرہا ہے۔
کسی بھی خرابی کی ابتدا بے مقصد عمل سے ہوتی ہے ۔خاندان بسانے اور شادی کرنے کا مقصد متعین نہ ہو تو انسان ایک جنسی حیوان سے زیادہ کوئی دوسرا کردار نہیں نبھا سکتا ۔آج بیشتر انسان شادی کوصرف جنسی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیںاور خاندان کے وجود میں آنے کے بعد جو ذمہ داریاں ان پر بیوی اور بچوں کے حقوق اور فرائض کے طور پر عائد ہوتی ہیں اس کا شعور کم ہی لوگوں کو ہے ۔اسلام نے خاندان کے بسانے کا جو مقصد بتایا ہے وہ اگر سامنے ہوتو خاندان محفوظ ہی نہیں رہتا بلکہ وہ ایک مثالی خاندان بن سکتا ہے۔ اس طرح کی بے مقصد زندگی نے ہماری حالت سبز وادی میں پھرتے جانوروں کی سی کردی ہے ۔
خاندان کے وجود میں آنے کی بنیاد شادی ہے۔ خرابی کی ابتدا یہیں سے ہے۔ شادی آج ایک مشکل اور بوجھل عمل ہوگیا ہے۔محض اس کے مشکل ہوجانے سے خاندانی نظام میں کئی خرابیاں آگئی ہیں بلکہ شادی کے بگاڑ کو خرابیوں کی جڑ کہا جا سکتا ہے۔ موجودہ خرابیوں کا تذکرہ کیا جائے تو ایک طویل فہرست ہے جو ہمارے خاندانوں کی روایت بن چکی ہے۔ جہیز کی لعنت، صارفیت کا کلچر ،بزرگوں کی اہمیت کا کم ہوجانا ،اولاد کا بے تربیت رہ جانا ،مغربی تہذیب کا گھروں میں رائج ہوجانا،ٹی وی کلچر کا فروغ ،بے پردگی، شادی بیاہ کی بے جا رسمیں، ساس بہو اور دیگر اہل خاندان کے درمیان نا خوشگوار تعلقات ،سودی قرضوں کا بوجھ اور عیش کا حصول، وراثت کی تقسیم میں بے اعتدالی، شوہر اور بیوی کے جھگڑے، طلاق و خلع کے مسائل وغیرہ ۔ اتنی ساری خرابیوں کے ساتھ کوئی خاندان ایک بہتر،مضبوط اور صالح معاشرہ کی اکائی کیسے بن سکتا ہے؟
1-شادی اور جہیز
ہمارے خاندانی نظام کو شادی اور جہیز کی خرابی دیمک کی طرح کھا رہی ہے ۔مہنگی اور عالیشان شادیاں، کثیر مہمانان،پر لطف اور متنوع کھانے لاکھوں کے اخراجات کا تقاضہ کرتے ہیں۔
جہیز کی لعنت مختلف شکلوں میں روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔بے شمار لڑکیاں جہیز نہ دینے کی وجہ سے شادی سے محروم ہورہی ہیں ۔ پرتکلف شادیوں کے کلچر نے بے شمار خاندانوں کو قرض کے بوجھ تلے دبادیا ہے اور ان میں سے بیشتر سودی قرض کی لعنت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔لالچی لڑکے والے غریب خاندانوں کی طرف رخ بھی نہیں کرتے جس کی وجہ غریب ماں باپ پریشان ہیں ۔ایک اور بیماری اس سلسلے کی یہ ہے کہ لڑکی کے انتخاب میں رنگ، خوبصورتی اور ناک نقشہ کو غیر معمولی اہمیت دی جارہی اور اس کے مقابلے علم اور اخلاق و کردار اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کا دوسرا نقصان بیوٹی پارلر کے کلچر کا فروغ ہے،جہاں خوبصورت دکھنے کے لیے لاکھوں روپیے خرچ کیے جارہے ہیں۔ صورتحال اس سے بھی تشویشناک یہ ہے کہ اب شادیوں میں ناچ گانا اور بہت سی بے ہودہ رسمیں رائج ہو چلی ہیں ۔بے پردگی اور اختلاط مرد وزن میں اضافہ ہوا ہے جو بہت سی معاشرتی خرابیوں کی جڑ ہے۔
ساس سسر اور بہو
یہ مسئلہ ہر گھر کا مسئلہ بن گیا ہے ۔شادی کے بعد ساس اور بہو کی نااتفاقیاں بہت سے مسائل کی وجہ ہیں ۔اس کی دو صورتیں ہیں ایک میں ساس سسر کی طرف سے لڑکی کے ساتھ ظلم و نا انصافی ہوتی ہے اور دوسری صورت یہ بھی ہے کہ بہو کی طرف سے ساس سسر کے ساتھ ناروا سلوک بلکہ ظلم کیا جا رہا ہے اس کا نتیجہ بوڑھے لوگوں کا بے سہارا ہوجا نا ہے ۔قوت برداشت کا کم ہونا، صبر و تحمل،عاجزی وانکساری،عفو ودرگزر جیسے جذبات سے عاری ہوجانا خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کی صورتحال کی وجہ ہے ۔
معیار زندگی کی دوڑ
اپنے معیار زندگی کو بلند کرنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس میں مادہ پرستی، حرص اور حسد کے جذبات پیدا ہوجائیں، سامان زندگی کو جمع کرنے اور اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کی دوڑ میں حلال و حرام کے تمام حدود توڑ دی جائیں،گھر،بنگلہ ،گاڑی اورگھریلو تعیشات کی ہر چیز حاصل کرنے کےلیے بینکوں سے سود پر قرض لینا خاندانوں کا معمول بن جائے تو یقینا برا ہے۔خواہشات پوری نہ ہونے کی صورت میں افراد خاندان کے درمیان تناؤ اور خاندان میں نفسیاتی بیماریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔دولت کی محبت، حرص، لالچ، حسد ، جلن ،نفرت جیسے جذبات کو فروغ دیتی ہے جو افراد اور خاندان کے لیے تباہ کن ہیں ۔
ٹی وی کلچر
ٹی وی ہمارے خاندانوں کا بہترین ’وقت خور‘ یا ٹائم پاس بن گیا ہے ۔ٹی وی نے سیریلس کے نام پر خاندانی زندگی کی انتہائی بے ہودہ اور گندی تہذیب کا تعارف کروایا ہے ۔ہماری خواتین ان سیریلس کو دیکھ کر اسی طرح کے طرز زندگی کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ ہمارا رہن سہن ،ہماری تقریبات میں ٹی وی سیریلس کی بے ہودگی صاف نظر آرہی ہے۔ خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے لیےٹی وی سیریلس سمِ قاتل ہے۔
اہل خاندان سے تعلقات کی کمزوری
مادہ پرست ذہنیت اور حرص ولالچ نے افراد خاندان کے درمیان خود غرضی ،خود پسندی ،حسد وجلن، کبر و غرور جیسے جذبات کو فروغ دیا ہے ۔جن سے آپسی محبت و الفت ختم ہورہی ہے۔ وراثت کی نامناسب تقسیم بھائیوں اور بہنوں کے درمیان دشمنیاں پیدا کررہی ہیں۔دوسری طرف کولہو کے بیل کی طرح سامانِ زندگی فراہم کرنے میں جتے رہنے والے افرادِ خاندان کو ایک دوسرے سے جذباتی اور عملی طور سے کاٹ دیا ہے۔
شوہر اور بیوی کے تعلقات
ایک بڑی چیزجو کسی بھی خاندان کی خوشگواری کے لیے ضروری ہے وہ ہے شوہر اور بیوی کے درمیان خوشگوار اور محبت و تعاون پر مبنی تعلقات۔موجودہ خاندانوں میں میاں بیوی کے تعلقات میں بگاڑ تیزی سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض سے نا واقفیت ہے۔قوت برداشت کی کمی، صبر، عاجزی اورعفو و درگزر کی کمی جھگڑوں کی وجہ ہے۔ زیادہ تر جھگڑوں کی بنیاد وہ خیالی دنیاہے جو ٹی وی اور فلم کلچر نے دکھائی ہے جو بظاہر بہت حسین ہے اور اس کی عدم تکمیل کا نتیجہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اس کا اثر پورے خاندانی نظام پر پڑتا ہے۔
ان اہم مسائل کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں جنھیں ہم خود سمجھ سکتے ہیں اور وقت رہتے ان مسائل اور کمزوریوں کا ازالہ ضروری ہےاور یہ عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔
یہ عملی کوشش اسی وقت کارآمد ہوسکتی ہے جب تمام اہل خاندان میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ خاندان انسانی ضرورت ہے اور یہ بات خالق کائنات نے فرمائی ہے ۔لہٰذا اس میں بگاڑ اور اس کی ذمہ داریوں سے لاپرواہی گناہ ہے اور آخرت میں اس لاپرواہی کا حساب دینا پڑے گا ۔
اصلاح کے اقدامات
خاندان کی اصلاح کی فکر کے ساتھ ہی عملی کوششوں کا آغاز ہونا چاہیے۔ ان کوششوں کی دو سطح ہیں۔ پہلی سطح یہ ہے کہ ہم اہلِ خانہ کے سامنے ایک مثالی اور اچھے خاندان کا وہ تصور پیش کریں اور اسے سمجھائیں جو ہمارا مقصود اور مطلوب ہے۔ درحقیقت یہ مطلوب اور مقصود اسی طرح کا خاندان ہے جو عہدِ رسالت میں قائم ہوا تھا۔ اس کے اجزاء ترکیبی باہمی معاملات اور رویوں میں اللہ کا تقویٰ اور احسان کا جذبہ تھا۔ اس مثالی خاندان کے لوگ آپس میں اللہ کے لیے محبت کرتے تھے اور بھرپور کرتے تھے۔ وہاں اپنے حق سے کم لینے اور دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ ایک دوسرے کے خلوص، ایثار اور عزت و احترام لازمی چیز تھے۔ چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت اور بڑوں کا اکرام و احترام لازمی اقدار تھیں۔ بزرگوں کا احترام اور ان کی خدمت باعثِ سعادت ہوتی تھی اور بوڑھے والدین کو ’’اُف‘‘ تک کہنا ناقابلِ تصور تھا۔
ہمیں اپنے خاندان کے افراد کے اندر ان اقدار اور خوبیوں کو متعارف بھی کرانا ہے اور انہیں ان اقدار کا نمونہ بناکر ایک مثالی اسلامی اور مضبوط خاندان تشکیل بھی دینا ہے۔ یہ ہمارا ذاتی ایجنڈا ہوا۔
اس کے بعد سماج کے دیگر خاندانوں کو اس ایجنڈے کا حصہ بناکر انہیں انہیں ان اقدار کو اپنے یہاں متعارف کرانے کی اور عملی زندگی میں نافذ کرنے کی تلقین اور کوشش پر آمادہ کرنا ہے۔ اگر ہمارے ذہنوں میں اس اسلامی خاندان کا تصور مضبوط ہوگیا تو ہماری خاندانی اور سماجی سرگرمیاں، تقاریب اور شادیاں، معاملات کے انداز اور زندگی جینے کے طور طریقے اور رویے تبدیل ہوجائیں گے۔
اس سلسلے میں کچھ تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے ہم اپنے خاندان اور سماج کو مضبوطی کا تصور بھی دے سکتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کے نفاذ کو بھی یقینی بناسکتے ہیں۔
l اہل خاندان کی دینی تعلیم کا نظم کیا جائے۔ گھر میں کم از کم اتنا بنیادی اسلامی لٹریچر ضرور ہو اور لوگ اسے پڑھیں کہ وہ اسلام کے طرزِ معاشرت کو سمجھ سکیں اور اسلام کی معاشرتی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کرسکیں۔ اس میںقرآن پڑھنے کے ساتھ اس کو سمجھنے اور غور وفکر کا ماحول پروان چڑھے۔ احادیث،سیرت رسول و صحابہ،تاریخ اسلام اور دیگر اسلامی کتب کے مطالعہ کا ماحول بنایا جائے ۔
lگھروں میں ٹی وی،انٹرنیٹ اور موبائل کے استعمال پرضروری حد تک کنٹرول کیا جائے۔اس کو حصول علم اورصحت مند تفریح اور معلومات کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے۔
l کوشش ہو کہ شادی کو آسان سے آسان تر بنایا جائے۔مہنگی اور عالیشان شادیوں کے رواج کی حوصلہ شکنی کی جائے۔جہیز کے لین دین پر خصوصی روک لگائی جائے۔ جہیز نہ لینے والے کی خوب ہمت افزائی کی جائے ۔ایسا اس لیے ضروری ہے کہ شادی خاندان کی بنیاد ہے اور اس بنیاد کو اسلامی نقشے کے مطابق بنانا اس کے استحکام کا ضامن ہے۔
l شادی کے لیے لڑکے یا لڑکی کے انتخاب میں دینداری کو ترجیح دی جائے ۔لوگوں میں یہ بات عام کی جائے کہ اصل خوبصورتی صرف رنگ اور صورت میں نہیں ہے بلکہ کردار اور برتاؤ میں ہے اور ہمارے رسولؐ نے شادی کے لیے دین داری کو اہم بنیاد قرار دیا ہے۔ اس طرح کے زیادہ تر معاملات کے لیے عورت ذمہ دار ہوتی ہے لہٰذا عورتوں کے اجتماعات اور مجلسوں میں ان ہی موضوعات پر زیادہ ذہن سازی کی جائے اور اسلامی نظریہ کا عملی خوگر بنایا جائے۔
lگھروں کے جھگڑے اکثر حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کو لے کر ہوتے ہیں۔ بھائی بھائی کے ہوں یا ساس بہو کے ہر ایک کو عفو و درگزر، صبر و تحمل اور ایثار و قربانی کے ساتھ وسعت قلبی کا پیکر بننے اور بنانے کی فکر کی جائے۔
lبزرگوں سے بے اعتنائی کے مسائل میں ہمیں یہ تصور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ جیسے بھی ہیں اور جس حالت میں بھی ہیں ان کی خدمت اور دیکھ بھال ہمارے لیے سعادت ہے۔ ان کی طرف سے ناپسندیدہ باتوں اور رویوں کو برداشت کرنے ہی میں تو بڑا اجر ہے۔
lشوہر و بیوی کے درمیان کے معاملات کو سلجھانے کے لیے دونوں کی کونسلنگ اس بنیاد پر ہو کہ دونوں اپنی زندگی میں تقویٰ، احسان، محبت و ایثار کو لازم کرلیں۔ دونوں اپنی اپنی حدود و اختیارات کو بھی سمجھیں اور اللہ و رسولؐ کی ان ہدایات کوبھی پیش نظر رکھیں جو ازدواجی زندگی کے لیے فراہم کی گئی ہیں۔
l رشتہ داروں ،خاص طور پر قریبی رشتہ داروں سے ملنے جلنے اور ان کی خبر گیری کی عادت کو پروان چڑھایا جائے۔اس میں عفو ودرگزر اور خود سے پہل کرنے کی کوشش کی جائے اور رشتہ داروں کے حقوق، راضی رہنے یا ناراض رہنے، ہر دو صورت میں ادا کرنے کو یقینی بنایا جائے۔
l ہر گھر میں نمازوں کی پابندی اور مطالعہ قرآن کا ماحول پروان چڑھایا جائے۔گھروں محلوں اور مسجدوں میں ریڈنگ رومز قائم کیے جائیں اور مساجد ہمارے نوجوانوں کی معاشرتی زندگی میں اسلامی ہدایات کو نافذ کرنے کی تربیت گاہ بنیں۔
lپیار محبت،عفو درگزر، خلوص و اپنائیت، عاجزی و انکساری،حلم و بردباری،ایثار و قربانی جیسی روایتیں جو ہمارے معاشرے سے دور ہوچلی ہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جائے اور لوگوں میں آگے بڑھ کر اس سلسلے میں اقدامات کرنے کے اجرو ثواب اور خاندان و معاشرے کو ہونے والے فوائد کو بتایا جائے۔
تبدیلی اور اصلاح ممکن ہے اور عین فطری بھی ہے لہٰذا اس کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔بہ ظاہر یہ تجویزیں چھوٹی محسوس ہوتی ہیں مگر تبدیلی کی امیدیں جگاتی ہیں۔ اس کے لیے تبدیلی کی سوچ کو پیدا کرنا اور مشن بنانا ضروری ہے۔ایک اچھی عادت کئی خراب عادتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔اسی طرح اچھے رویے کئی برے رویوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ چراغ سے چراغ جلیں گے تو روشنی پھیلے گی ۔
اس کام کو کرنے کے لیے ایک زبردست تحریک اور ترغیب درکار ہے ۔کیا قرآن کے اس حکم کے علاوہ بھی کوئی اور ترغیبی اور تحریکی بیان ہو سکتا ہے کہ:
’’اے لوگو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ‘‘ ( تحریم )
ll
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021