اسلام اور نیشنلزم: دو قومی نظریہ اور متحدہ قومیت کے تناظر میں
دونوں نظریات کی بنیاد پراب تک کے تجربات
شبیع الزماں، پونے
مولانا حسین احمد مدنی،مولانا آزاد، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کا موقف بیک نظر
یورپ میں نشاۃ الثانیہ کے بعد مغربی ممالک میں کئی جدید نظریات نے جنم لیا۔ مغرب اور اسلام کی کشمکش جہاں ایک طرف جنگی اور سیاسی میدان میں جاری تھی وہیں دوسری طرف یہ کشمش نظریاتی میدان میں بھی جاری تھی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی جاری ہے۔ ان نظریات میں ایک اہم نظریہ نیشنلزم کا تھا۔جدید قومیت کا نظریہ یہ ہے کہ مشترکہ شناخت، ثقافت، زبان یا تاریخ رکھنے والے افراد کو ایک مربوط اور خود مختار قومی ریاست بنانا چاہیے۔ یہ ریاست ایک آزاد ریاست ہوگی جو اپنے معاملات بیرونی مداخلت سے آزاد ہو کر طے کرے گی۔ اس ریاست کے عوام کی مشترکہ قومی شناخت ہوگی اور وہ اس ریاست کے وفادار شہری ہوں گے۔ نیشن اسٹیٹ کا یہ تصور بنیادی طور پر جغرافیائی حدود پر مبنی قومیت کا تصور ہے۔
نیشنلزم کے اس تصور نے یورپ کے ساتھ ایشیا کو بھی متاثر کیا اور برصغیر میں قومیت کے اس جدید تصور پر مختلف رد عمل سامنے آئے ۔
برصغیر میں یہ بحث ہندوستان کی آزادی کے تناظر میں ابھری۔ متحدہ قومیت کا تصور ہندو مسلم اتحاد کے طور پر دیکھا گیا جو آزادی کی لڑائی کے لیے لازمی جز تھا۔ اس کے بالمقابل دو قومی نظریہ تھا جس کے تحت آزادی کی لڑائی سے زیادہ اہمیت تہذیبی شناخت اور ملی تحفظ کی تھی۔ اس ضمن میں دینی حلقوں کے مباحث میں چار نام ابھر کر سامنے آئے۔ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور مولانا مودودی۔
مجموعی طور پر انہیں کے افکار نے دیگر لوگوں کو متاثر کیا اور ان ہی کے افکار میں کمی بیشی کے ساتھ اس تصور قومیت پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ قومیں فی زمانہ اوطان سے بنتی ہیں جس پر اخبارات میں ان کے خلاف خوب بازار گرم ہو گیا اور اسی تناظر میں علامہ اقبال نے غالباً اپنی شاعری کی سخت ترین اشعار کہہ دیے۔
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجمی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقام محمد عربی است
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است
تین اشعار میں اتنی سخت باتیں کہہ دی گئیں جو شاید کئی سو صفحات میں بھی نہیں کہی جاسکتی تھیں۔
عجم آج تک دین کے راز نہیں سمجھ پایا اگر سمجھ چکا ہوتا تو حسین احمد مدنی جن کا تعلق دیوبند جیسے دینی مرکز سے ہے برسر منبر یہ بات نہ کہتے کہ ملت وطن سے بنتی ہے۔ یہ ان کے منہ سے کیا حیران کن بات نکلی ہے۔ حالانکہ تقریر کسی سیاسی جلسہ میں تھی، مگر اسے ’’بر سر منبر‘‘ ٹھیرایا گیا ہے اور اسے ’’سرود‘‘ بہ معنی راگ کا نام دیا گیا ہے۔ پھر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ شخص محمد عربی (ﷺ) کے مقام سے واقف نہیں ہے اور آخری میں سخت نصیحت کی کہ دین تو تمام تر حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کو پہچاننے کا نام ہے، تم اگر ان کی ذات گرامی تک نہیں پہنچ پاتے تو اس سے ہٹ کر فکر و عمل کی کوئی دنیا بساؤ گے تو چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے اور ظاہراً کتنی ہی دلکش کیوں نہ نظر آتی ہو، ابولہب کی دنیا ہوگی۔
علامہ اقبال قومیت کے مسئلہ کو ایک سیدھا سادھا نظری مسئلہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک یہ امت کی تہذیبی بقا کا مسئلہ تھا۔ ان اشعار کے بعد، وہ ان کے اور مولانا حسین احمد کے درمیان بلا واسطہ خط و کتابت میں لکھتے ہیں
’’مولوی صاحب کو میری طرف سے یقین دلائیے کہ میں ان کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں البتہ اگر مذکورہ بالا ان کا مقصد وہی ہے جو میں نے اوپر لکھا ہے تو میں ان کے مشورے کو اپنی ایمان اور دیانت کی رو سے اسلام کی روح اور اس کے اساسی اصولوں کے خلاف جانتا ہوں۔ میرے نزدیک ایسا مشورہ مولوی صاحب کے شایان شان نہیں اور مسلمانان ہند کی گمراہی کا باعث ہوگا اگر مولوی صاحب نے میری تحریروں کو پڑھنے کی کبھی تکلیف گوارا فرمائی ہے تو انہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ میں نے اپنی عمر کا نصف، اسلامی قومیت اور ملت کے اسلامی نقطہ نظر کی تشریح و توضیح میں گزارا ہے محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا کے لیے اور خصوصا اسلام کے لیے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایک خطرہ عظیم محسوس ہوتا ہے ‘‘
اقبال وطنی قومیت کے سیاسی نظریہ کو شرک قرار دیتے۔ وہ نری شاعری نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک شرک کے جو منفی نقصانات انسانی سماج پر پڑتے ہیں وہی اثرات وطنی قومیت کے ہوتے ہیں، جس سے اقوامِ جہاں میں رقابت پیدا ہوتی ہے جس کا مقصد تجارت پر قبضہ کرنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کمزور کا گھر غارت ہو جاتا ہے، مخلوقِ خدا اس سے تقسیم ہو جاتی ہے اور سیاست صداقت سے خالی ہو جاتی ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک وطن بھی ایک بت ہے اور وطن کی پرستش کرنا بھی ویسا ہی شرک ہے جیسا کسی بت کی پرستش کرنا شرک ہے۔
ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
اور اس امت کی وحدت کی بنیاد کوئی اور چیز نہیں بلکہ مذہب ہے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
علامہ اقبال کے اس سخت موقف کے بعد مولانا حسین احمد نے ’’متحدہ قومیت‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ لکھ کر اپنا موقف واضح کیا۔
مولانا کا موقف یہ تھا کہ متحدہ قومیت کا تصور اسلام سے نہیں ٹکراتا ہے بلکہ مسلمان بیک وقت دونوں شناختوں کے ساتھ یہاں رہ سکتا ہے وہ لکھتے ہیں۔
’’خلاصہ یہ کہ مسلمانان ہند۔ ہندوستان میں رہ کر اور یہاں کے غیر مسلم اقوام کے ساتھ ایک قوم ہندوستانی بن کر مسلمان بھی رہ سکتے ہیں اور اپنے مذہب کلچر پرسنل لا، زبان، حقوق کے محافظ بھی ہو سکتے ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی تدابیر بھی عمل میں لاسکتے ہیں اور ان سب امور کے ساتھ ساتھ تمام عالم اسلامی کے ساتھ (خواو وہ افغانستان کے باشندے ہوں، یا ایران، عراق، حجاز، یمن، شام، فلسطین، مصر، ایشیائے کوچک، وسط ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ وغیرہ) اسلامی تعلقات قائم کرسکتے ہیں اور حسب ہدایات اسلامیہ تمام فرائض یگانگت و اتحاد دینی ادا کرسکتے ہیں، ان میں آپس میں تعارض ہے ہی نہیں، اس کی بنا پر نہ ان کے آپس کے علائق اسلامیہ اور رشتہ یگانگت میں فرق پڑا ہے اور نہ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے رشتہ یگانگت میں کوئی تصادم ہو سکتا ہے‘‘
مولانا حسین احمد مدنی کے انگریز کے ظلم سے نجات کا راستہ ہندو مسلم اتحاد تھا بلکہ ان کا کہنا ہی یہ تھا کہ اسلامی قومیت کا تصور ہی انگریزوں کی پھوٹ ڈالو کی سازش کے تحت پھیلایا جا رہا ہے اور مسلمان اپنی سادہ لوحی کے سبب اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
متحدہ قومیت کے حق میں انہوں نے قرآن و سنت، عربی لغت اور سیرت رسول کے میثاق مدینہ والے اقدام سے دلائل دیے۔ اسی کے ساتھ مسلمان کس طرح اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ملی وجود کی حفاظت کر پائیں گے اسے بھی تفصیل سے واضح کیا۔
مولانا حسین احمد مدنی کا کتابچہ شائع ہونے تک اقبال اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے لیکن ان کے کتابچے کے جواب میں مولانا مودودی نے ایک طویل تنقیدی مضمون لکھا جس میں مولانا حسین احمد مدنی کے سبھی دلائل کا ایک ایک کرکے سخت تنقیدی جائزہ لیا۔ مولانا مودودی نے قرآن و سنت سے یہ واضح کیا جدید نیشنلزم اور اسلام میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ قومیت سے متعلق ان کے مضامین مسئلہ قومیت کے نام سے چھپے ہیں۔ ان مضامین کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے اگر کوئی اسلام میں قومیت کا حقیقی تصور سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ کتابچہ کافی ہے۔ مولانا مودودی نے قرآن و سنت کے دلائل سے واضح کیا اسلام فرد کو بہ حیثیت انسان مخاطب کرتا ہے اور قومیت کو وہ ’’جاہلیت جدیدہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مولانا کے نزدیک دونوں قومیتیں یعنی اسلامی اور وطنی ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ہے۔ وہ مسئلہ قومیت میں لکھتے ہیں:
’’ بعض لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ وطنی یا نسلی قومیت کا احساس پیدا ہونے کے بعد بھی اسلامی قومیت کا رشتہ مسلمانوں کے درمیان باقی رہ سکتا ہے اس لیے وہ اپنے نفس کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ دونوں قسم کی قومیتیں ساتھ ساتھ چلیں گی ایک سے دوسری پر آنچ نہ ائیں گی اور ہم ان دونوں کے فوائد جمع کر لیں گے لیکن یہ محض جہل اور قلت فکر کا کرشمہ ہے جس طرح خدا نے ایک سینے میں دو قلب نہیں رکھے۔ اسی طرح ایک قلب میں دو قومیتوں کے متضاد اور متصادم جذبات کو جمع کرنے کی گنجائش بھی نہیں رکھی‘‘۔
مولانا مودودی کے نزدیک مسلمان کانگریس پر اندھا اعتماد کرکے غلطی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک مسئلے کا حل متحدہ قومیت نہیں بلکہ وفاق کے اصول پر معاملات طے کرنا تھے۔ وہ مسئلہ قومیت میں مزید لکھتے ہیں:
’’میں پہلے بھی بارہا کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان کی آزادی اور سیاسی و معاشرتی ترقی کے لیے سرے سے قومی وحدت اور نیشنلزم کی حاجت ہی نہیں ہے جہاں مختلف تہذیبی قومیتیں موجود ہوں وہاں قومی وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے، نہ صرف یہ کہ اصولاً غلط ہے بلکہ نتائج کے اعتبار سے بھی مفید ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ہے۔
اس جگہ وحدت نہیں بلکہ وفاق کے اصول ہی چل سکتے ہیں۔ ہر قوم کی مستقل حیثیت تسلیم کی جائے۔ ہر ایک کو اپنے قومی معاملات میں آزاد خود مختار قرار دیا جائے اور صرف مشترک وطنی اغراض کی حد تک تمام قوموں کے درمیان اتفاق عمل کا معاہدہ ہوجائے۔ بس یہی ایک صورت ہے جس سے ملک کی تمام جماعتوں میں اپنی انفرادیت کی بقا و تحفظ کا اطمینان پیدا ہو سکتا ہے اور یہی چیز ملک کی تمام قوتوں کو سیاسی ترقی کی جدوجہد میں ایک محاذ جنگ پر مجتمع کر سکتی ہے۔‘‘
ان تینوں کے علاوہ ایک اور قد آور شخصیت اس بحث کا حصہ تھی۔ مولانا آزاد کسی سے الجھے نہیں لیکن ان کا موقف متحدہ قومیت کے حق میں تھا۔ مولانا آزاد کا یقین تھا کہ مسلمان تنہا نہ تو اس ملک پر اقتدار پا سکتے تھے اور نہ الگ رہ کر اپنے قومی وجود کو تحفظ دے سکتے تھے۔ ان کے نزدیک دنیا قدامت کے سانچوں کو توڑ کر ایک نئے فکری سانچے میں ڈھل رہی تھی اور جدید سیاسی دھارے قدیم سے نظریاتی طور پر بہت مختلف ہونے والے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کا صحیح نقشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد ہی سے ابھر سکتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اسلام کے ملی اتحاد کے تصور سے واقف نہ تھے جبکہ وہ خود ایک زمانے تک پان اسلام ازم کے داعی رہ چکے تھے۔ وہ تقسیم کو ہولناک خیال کرتے تھے، ان کی نظر میں تقسیم میں مسلمانوں کے لیے ہر اعتبار سے خسارہ تھا، بلکہ ان کے وجود کو خطرہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستان تمام مسلمانوں کا گھر نہیں ہو سکتا اور ہندوستان کے کروڑوں مسلمان ہندو اکثریت کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے، مشرقی اور مغربی پاکستانی مسلمان اپنے مزاجوں کے سبب متحد نہیں رہ پائیں گے اور بہت جلد ان کی علیحدگی یقینی بن جائے گی۔ پاکستان کی تخلیق کا واحد نتیجہ بر صغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی پوزیشن کم کردے گا۔ ہندوستان اور پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے کے دشمن رہیں گے۔
وہ متحدہ قومیت کو مسلم تہذیب کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے تھے۔ کانگریس کی صدارتی تقریر میں ہندوستانی مسلمانوں کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں
’’مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں، اسلام کی 1300 سال کی شان دار روایتیں میرے حصہ میں آئی ہیں۔ میں اس بات کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع کروں۔ مجھے ایک ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ میں اس ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہوں۔ میرے بغیر اس کا نقشہ نا مکمل ہے۔ میرے بغیر اس کی تعمیر نا ممکن ہے، میرا دعویٰ ہے کہ اسلام کا اس سر زمین پر ویسا ہی حق ہے جیسا ہندوازم کا ہے۔ اگر ہندوازم ہزاروں سال سے یہاں کا مذہب ہے تو اسلام بھی ایک ہزار سال سے یہاں کا مذہب ہے۔ جس طرح ایک ہندو فخر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندوازم کی پیروی کرتا ہے اسی طرح ہم بھی فخر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہیں اور اسلام کی پیروی کرتے ہیں‘‘
قومیت کا مسئلہ ایک جدید مسئلہ تھا اور تمام مفکرین نے اپنے اپنے دلائل اور حالات کے تجزیہ کی بنیاد پر اجتہاد کیا۔ ظاہر ہے کہ چاروں ہی لوگ دین اور اس میں امت کے مقام اور دین کے آفاقی تصور سے واقف تھے اور سوال صرف ہندوستان کے مخصوص حالات میں اس کی تعبیر کا تھا۔
تمام مباحث کو پڑھنے کے بعد متحدہ قومیت یا دو قومی نظریہ کے فوائد اور نقصانات دو بنیادوں پر طے کیے جا سکتے ہیں۔
اول۔ متحدہ قومیت کے سبب مسلمان اپنی تہذیبی شناخت کھو دیں گے اور ہندو تہذیب میں ضم ہوجائیں گے۔
دوم۔ مسلمان مستقل طور پر ہندو استبداد کے جبر تلے زندگی گزاریں گے۔ ان کے لیے ترقی اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع موجود نہیں ہوں گے۔
آج جب کہ ان تمام بحثوں کو ہوئے ایک صدی ہونے کو ہے اور دونوں ہی نظریات کی بنیاد پر تجربات ہوچکے ہیں، جائزہ لینا نسبتاً آسان ہے۔
اگر پہلی بنیاد کا ہم جائزہ لیں تو اس وقت جو خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ مسلمان یا تو اشتراکیت کے شکار ہو جائیں گے اور ان کی نسلوں میں ملحدوں کی کھیپ تیار ہو گی یا پھر وہ ہندو تہذیب میں ضم ہوجائیں گے، انہیں گنگا کا پانی زمزم سے مقدس لگے گا، ان کے گھروں میں شریمان اور شریمتیاں پیدا ہوں گی اور ان کی نسلیں محمد (ﷺ) اور صحابہ کرام کی جگہ ارجن اور بھیم کو اپنا آئیڈیل تسلیم کریں گی اور دین محمدی ہندو تہذیب کے ساتھ نیا مرکب بنا لے گا۔ وقت کے ساتھ یہ تمام خدشات غلط ثابت ہو گئے۔ متحدہ ہندوستان تو درکنار بٹوارے کے بعد کی کمزور اقلیت نے بھی اس درجہ کی سپردگی نہیں کی۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔ مسلمان بالعموم اور مسلم نوجوان بالخصوص گزرتے وقت کے ساتھ اپنے دین اور تہذیب کے زیادہ قریب ہوتے گئے، اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو آج کی بہ نسبت مسلم حکم رانی کے دور میں مسلمانوں میں ہندو تہذیب کے اثرات زیادہ پائے جاتے تھے۔ وہی بات جو اقبال نے مغرب کے لیے کہی تھی شاید ہندوستان کے لیے نظر انداز کر گئے۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
لیکن دوسرا خدشہ جتنا تصور کیا گیا تھا اس سے بھیانک ثابت ہوا۔ مسلمان مستقل طور پر تعلیم، معاش اور ترقی کے محاذوں پر پچھڑتے چلے گئے۔ وہ ہمیشہ سے کبھی ریاست اور کبھی اکثریت کے ہاتھوں جان و مال کا نقصان اٹھاتے رہے، یہاں تک کہ اب ان کا کوئی پرسان حال تک نہیں رہا۔ سیاسی طور پر وہ اچھوت بنا دیے گئے۔ تقسیم کے بعد ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک بنا جہاں اصولی طور پر تو سب کے لیے یکساں آزادی تسلیم کی گئی تھی لیکن عملاً ابتداء ہی سے ریاست کا جھکاؤ
اکثریت کی طرف رہا اور آج تو صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اکثریت نواز حکومت ہے۔ آج ملی تحفظ کی کیا صورت حال ہے، جو سوالات ایک صدی پہلے تھے وہی سوالات اب بھی برقرار ہیں۔ ایک صدی کا سفر ہندوستانی مسلمانوں نے اس دوران طے کر لیا لیکن اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے ایک صدی پہلے چلے تھے۔ وہی اندیشے، وہی سوالات اور وہی بے چینی جو پہلے وجود کے تحفظ کے لیے تھی اب بھی برقرار ہے۔ یہ کیسا سفر ہے جو ایک صدی بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ لمحوں کی وہ کونسی خطا تھی صدیاں جس کی سزا پا رہی ہیں۔ تمام تر تجزیوں کے بعد آخری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ دونوں ہی طرح کے نظریات کو بر صغیر کے مسلمانوں کی تائید حاصل رہی لیکن مجموعی طور پر کوئی بھی تجربہ زیادہ کامیاب نظر نہیں آتا ہے۔
***
مسلمان بالعموم اور مسلم نوجوان بالخصوص گزرتے وقت کے ساتھ اپنے دین اور تہذیب کے زیادہ قریب ہوتے گئے، اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو آج کی بہ نسبت مسلم حکم رانی کے دور میں مسلمانوں میں ہندو تہذیب کے اثرات زیادہ پائے جاتے تھے۔ وہی بات جو اقبال نے مغرب کے لیے کہی تھی شاید ہندوستان کے لیے نظر انداز کر گئے۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023