اسلامی موضوعات پر مغرب کی یلغار مستشرقین کے نظریات کا محاکمہ
قرآن، مستشرقین اور مسلم فضلاء: علمی تحقیق کی نئی جہت
نام کتاب: قرآن مجید، مستشرقین اور مسلم فضلاء
مصنف: زریاب احمد فلاحی
ناشر: خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن، علی گڑھ
سن اشاعت: ۲۰۲۴ء
صفحات: ۳۶۰ قیمت ۵۰۰ روپے
مبصر: ابوسعد اعظمی (ادارہ علوم القرآن، شبلی باغ، علی گڑھ)
محمد مصطفیٰ الاعظمی، محمد مہر علی اور پروفیسر عبد الرحیم قدوائی کی تصانیف کا تجزیاتی مطالعہ۔ زریاب احمد فلاحی کی ایک گراں قدر کاوش
جناب زریاب احمد فلاحی مشرقی یوپی کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح بلریا گنج کے فارغ التحصیل ہیں۔ کئی برس انہوں نے اسی مدرسہ میں انگریزی زبان وادب کی تدریس کی خدمت انجام دی ہیں، انہیں انگریزی زبان کا اچھا ذوق ہے۔انگریزی میں بی اے، ایم اے کرنے کے بعد نیٹ کوالیفائی بھی ہیں، فی الحال معاون استاذ،محکمہ بنیادی تعلیمات، اعظم گڑھ میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ ساتھ ہی ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی میں اعزازی ریسرچ فیلو کی حیثیت سے قرآن ومستشرقین کے ایک اہم پروجیکٹ پر پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی زیر نگرانی کام کررہے ہیں۔زیر نظر کتاب اسی سلسلہ کی پہلی کڑی ہے۔ اس کتاب میں محمد مصطفیٰ الاعظمی، محمد مہر علی اور پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی تصانیف کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔واضح رہے کہ ان تینوں مصنفین نے استشراقی فکر اور ان کے اعتراضات کا بخوبی مطالعہ کیا ہے اور ان کے نقائص اور علمی بد دیانتی کو طشت از بام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔بالخصوص مصطفیٰ اعظمی اور محمد مہر علی نے تدوین اور جمع وترتیب قرآن کی شفاف تاریخ پر مدلل گفتگو کی ہے اور وحی، نزول قرآن، جمع وترتیب اور حفاظت قرآن سے متعلق مستشرقین کا محاکمہ کرتے ہوئے پوری تاریخ کو بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔پروفیسر قدوائی نے انگریزی تراجم قرآن کے جائزہ کی گراں قدر خدمت انجام دیتے ہوئے ان کے نقائص کی نشان دہی کی ہے اور تراجم قرآن کے پس پشت استشراقی فکر کے مذموم مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
ڈاکٹر محمد مصطفیٰ الاعظمی علمی دنیا کا ایک معروف نام ہے۔ قرآنیات پر ان کی دو کتابوں ۱۔دی ہسٹری آف دی قرآنک ٹیکسٹ(The History of the Quranic Text From revelation to compilation…) اور ۲۔النص القرآنی الخالد عبر العصورکو غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔اس کتاب کے ابتدائی ۱۵۰ صفحات میں پہلے سات ذیلی عناوین تاریخ قرآن، تحریری جمع قرآن، مسلم طریقۂ تعلیم، یہودیت کی ابتدائی تاریخ، عہد نامہ عتیق اور جدید، عیسائیت کی ابتدائی تاریخ اور مستشرقین اور قرآن کے عنوان سے تجزیاتی گفتگو کی گئی ہے پھر ان کی دوسری کتاب زندۂ جاوید قرآن کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب سے متعلق پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کا یہ تبصرہ مبنی بر حقیقت ہے کہ ’’اس میں قرآن مجید کے جمع وتدوین کی پوری تاریخ کو انتہائی دیدہ ریزی اور بصیرت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔قرآن مجید کی صحت کے اثبات میں موصوف نے آثاریات، کتبہ خوانی اور علم تہجی کا برمحل اور چشم کشا استعمال کیا ہے۔یہ تصنیف تحقیق اور استنباط کا ایک شاہ کار ہے‘‘(ص۱۲)اس کتاب کی وجہ تصنیف پر روشنی ڈالتے ہوئے ٹوبی لسٹر کے مضمون قرآن کیا ہے کو اس کا وجہ تصنیف قرار دیا گیا ہے۔فاضل مصنف کے الفاظ میں ’’ٹوبی لسٹر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ مسلمان یہ ایمان تو رکھتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ کی خالص کتاب ہے تاہم وہ اس کا علمی انداز میں دفاع کرنے کی بالکل بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مصطفی الاعظمی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اپنی اس شاہ کار تصنیف میں تدوین قرآن کی پوری تاریخ کا تنقیحی جائزہ پیش کردیا ہے۔انہوں نے دفاعی کے بجائے اقدامی رخ اپناتے ہوئے یہودیت وعیسائیت کی تاریخ کے آئینہ میں عہد نامہ قدیم اور جدید کی صحیح تصویر بھی پیش کردی ہے‘‘۔
مصنف نے یہود ونصاریٰ کے مطالعہ اسلام کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اسلام اور اس کی کتاب مقدس کی تصویر مسخ کرنے کی کوششیں آغاز اسلام سے ہی کی جارہی ہیں۔ اٹھارہوں صدی تک اس کا اولین ہدف مذہب اسلام کی برق رفتار پیش قدمی کے مقابلہ کے لیے عیسائیت کے ارد گرد دفاعی فصیل کھڑا کرنا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے بعد اسلام پر حملہ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جو دفاعی سے آگے بڑھ کر اقدامی قالب اختیار کرلیتا ہے۔ تیسرا دور بیسویں صدی کے وسط میں مملکت اسرائیل کے قیام کے فورا بعد شروع ہوتا ہے اور اس نے بڑی سرگرمی سے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کو ان تمام آیتوں سے پاک کردے جو یہودیوں پر مثبت انداز میں روشنی نہیں ڈالتی ہیں‘‘۔(ص۲۲)
مستشرقین نے قرآن کریم کی آفاقیت پر بھی اعتراض کیا ہے، ان کا نظریہ مصنف کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’قرآن ایک خاص دور کی ضمنی پیداوار ہے، اس لیے اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ یہ دنیا کی جملہ اقوام کے لیے کوئی ابدی آسمانی کتاب نہیں ہے۔ اس فکر کے نتیجہ میں مغربی فضلاء کا ایک ابھرتا ہواطبقہ اب یک زبان ہوکر روایتی تفسیری ادب پر یلغار کررہا ہے۔اس سے ان کا مقصود شکی قسم کے مسلمانوں کے کمزور ایمان وعقیدہ کی جڑیں متزلزل کرڈالنا ہے۔ ٹوبی لیسٹر کا مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے‘‘۔(ص۲۲۔۲۳) مصطفی الاعظمی نے ٹوبی لسٹر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر پوئن کے اعتراضات کا بھی محاکمہ کرتے ہوئے ان کے بطلان کو واشگاف کیا ہے۔
اس کے بعد جدید مستشرقین مثلاً نولدیکی اور منگانا کے اعتراضات کی نفی کرتے ہوئے مصنف نے واضح کیا ہے کہ ’’قرآن کا حفظ، جمع وتدوین، تعلیم وتدریس اور توضیح وتشریح ہی نبی ﷺ کے شب وروز کے معمولات اور بنیادی اہداف واغراض تھے۔اسی کا فیضان ہے کہ آج بھی ہر عمر، ہر جنس اور براعظم کے بے شمار مسلمانوں نے مکمل قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہوا ہے‘‘۔(ص۳۰)
اس کے بعد مصنف نے تعلیم قرآن، تحصیل علم کی حوصلہ افزائی، قرآن کی تعلیم وحفاظت کا مکی دور، صحابہ بحیثیت معلمین قرآن، مدنی دور، تعلیم قرآن کے اثرات، آیات وسور کی ترتیب وغیرہ ذیلی عناوین قائم کرکے حفاظت قرآن کے نبوی اہتمام پر روشنی ڈالی ہے۔ پھر تحریری جمع قرآن کی سرخی قائم کرکے عہد صدیقی میں جمع شدہ قرآن کا اہتمام، اشاعت قرآن کے ضمن میں عمر کا کردار، مصحف عثمانی، حجاج اور اس کی قرآنی خدمات، عربی رسم الخط کی تاریخ، عربی حروف کا تاریخی پس منظر، مختلف قرائتوں کے بنیادی وثانوی اسباب وغیرہ پر تفصیلی اظہار خیال کیا ہے۔
مسلم طریقہ تعلیم کے تحت مسلمانوں کے شوق علم پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ حقیقت بھی واضح کردی گئی ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل جزیرہ نمائے عرب میں کسی عربی کتاب کے وجود کا مآخذ میں ذکر نہیں ملتا، عربی کی پہلی کتاب دراصل قرآن مجید ہے، جس کی اولین وحی کا پہلا لفظ اقرأ ہے۔اس کی بنیاد پر طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہوگیا ۔ مدینہ آمد پر نبی ﷺ نے اس ضرورت کا فوری تدارک کیا اور بلغوا عنی ولو آیۃ کا نعرہ عام بلند کیا۔پھر فن اسناد کا فروغ، روایت کی صحت واستنادی حیثیت، رواۃ کی ثقاہت، آمیزش سے کتابوں کی حفاظت، ابن مسعود کا نام نہاد مصحف اور اس کے اندر کے بیان کردہ اختلافات، مصحف ابن مسعود کی حقیقت وغیرہ عناوین پر گفتگو کی گئی ہے۔
اس کے بعد تقریباً پچاس صفحات میں یہودیت وعیسائیت کی ابتدائی تاریخ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے انبیاء کرام کے سلسلے میں یہود کے انحرافات وخرافات کی مثالوں کے ذریعہ نشان دہی کی گئی ہے۔ نیز عہد نامہ عتیق اورجدید کے استناد سے بھی بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب کی سب سے گنجلک بحث ہے۔موضوع سے عدم مناسبت نیز، ترجمہ کی بعض فنی نزاکتوں کی وجہ سے راقم کے لیے اس کی خواندگی قدرے دشوار رہی۔اصل انگریزی کتاب سے استفادہ اس ضمن میں زیادہ معاون رہے گا۔
پھر مستشرقین اور قرآن کے عنوان سے مستشرقین کی ہرزہ سرائیوں کا محاکمہ کیا گیا ہے۔مصنف کے الفاظ میں ’’نص قرآنی پر مغربی یلغار کے بہت سے پہلو ہیں ان میں سے ایک جمع وتدوین قرآن ہے۔وہ استفسار کرتے ہیں کہ اگر قرآن واقعتاً عہد رسالت میں جمع کرلیا گیا تھا تو پھر جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت پر عمرؓ نے ابوبکرؓ سے کیوں کہا کہ قرآن کا زیادہ تر حصہ ضائع ہوجائے گا‘‘(ص۱۳۰) اس کے بعد نولدیکی،ہرشفیلڈ،گولڈزیہر،آرتھر جیفری، فلوگل، بلاشیر، منگانا، ڈاکٹر پوئن وغیرہ کے بے بنیاد اعتراضات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ خاتمہ بحث میں مصنف سے راقم کو پوری طرح اتفاق ہے کہ ’’اسلامی موضوعات کے ضمن میں مغربی تحقیق معروضیت کے دائرے سے نکل کر خود کو اسلام مخالف عقیدہ کی صورت میں پیش کرتی ہے‘‘۔(ص۱۴۱)
اس کے بعد مصطفی الاعظمی کی دوسری کتاب ’’النص القرآنی الخالدعبر العصور‘‘ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ یہ جائزہ سترہ قرآنی مسودات کی بصری جانچ اور مقابلہ سے عبارت ہے تاکہ ان کے متون کی موافقت یا مغایرت کو واضح کیا جاسکے۔اس میں سورۃ الاسراء کا اسی پہلو سے موازنہ پیش کیا گیا ہے اور اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخ کے مسودات کی بصری شہادت کا حسین گلدستہ ہدیہ قارئین ہے۔(ص۱۴۳) اس کتاب میں کسی خیال کے اثبات یا تردید کے بجائے قرآن کریم کے مستند مسودات کو جمع کرکے اس حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہےکہ قرآن شروع سے ہی اپنی اصل صحیح سالم صورت میں موجود ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی تحریف نہیں ہوسکی ہے۔
اس کے بعد شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ بنگال کے صاحب قلم محمد مہر علی کی گراں قدر انگریز تصنیف’’قرآن اور مستشرقین‘‘(The Quran And The Orientalists) کا الگ الگ عناوین سے محاکمہ کیا گیا ہے۔یہ کتاب ۳۸۵صفحات پر مشتمل ہے اور تاریخ قرآن، وحی قرآن، متن قرآن پر مستشرقین کے اعتراضات اور مستشرقین کے انگریزی تراجم قرآن وغیرہ سے متعلق قیمتی مواد پر مشتمل ہے۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں’’ یہ ان کی وہ گراں قدر تصنیف ہے جو قرآن کے حوالہ سے مستشرقین کے مفروضات، مزعومات اور نظریات کو نہایت جچے تلے اور مربوط انداز میں طشت از بام کرتی ہے۔اس کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے کوئی دفاعی یا معذرت خواہانہ اسلوب نہیں اپنایا بلکہ مستشرقین کے ہر استدلال اور دعوت کا ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے اور ان کے تضاد اور غیر معقولیت کو واشگاف کیا ہے‘‘۔ (ص۱۵۲)فاضل مصنف نے مشرکین مکہ اور مستشرقین کے اعتراضات کا محاکمہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مستشرقین کی ہفوات میں مشرکین مکہ کی ہی باز گشت سنائی دیتی ہے۔اپنی تمام تر جدید تحقیقات بلکہ نت نئی چالوں لے باوجود یورپین فضلاٗ، مستشرقین اور ماہرین نےبھی یہی ثابت کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے کہ قرآن انسانی کلام ہے۔(ص۱۵۵)اس کے بعد مختلف ذیلی عناوین کے تحت مستشرقین کے نظریات کا ابطال کرتے ہوئے قرآن کریم اور تورات کے درمیان تضادات کو بھی پیش کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ قرآن کے بیانات بائبل کی نقل محض نہیں ہیں۔ پھر وحی کے سلسلہ میں مستشرقین کے نظریات وتصورات کا محاکمہ کیا گیا ہے۔اس ضمن میں مصنف نے ولیم میور، مارگولیتھ، رچرڈ بیل اور مونٹگمری واٹ کے وحی کے سلسلہ میں مفروضات کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے حقیقت وحی پر خوبصورت گفتگو کی ہے اور قرآنی وحی کے متعدد شواہد نقل کیے ہیں۔
کتاب کے ایک اور اہم باب مستشرقین اور تاریخ قرآن کا بھی بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اجمالا جمع وتدوین کی حقیقت پیش کی گئی ہے۔اس کے بعد نولدیکی کی کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ جس میں اس نے قرآن کی یہودی وعیسائی مبادیات، وحی کی کیفیت، نبی کی شخصیت، جمع واشاعت قرآن بعہد صدیقی وعثمانی اور قرآن کی ادبی خوبی پر بحث کی ہے اور طرح طرح کے مفروضات قائم کیے ہیں ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسی طرح آرتھر جیفری، رچرڈ بیل،مونٹگمری واٹ، جان برٹن، جان وانسبرا، جے کورین، یہوداڈی نیوو کے مفروضات کا بھی ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نظریہ نسخ، دخیل الفاظ کی بحث اور کاتبین وحی کی غلطیوں کے حوالہ سے مذکورہ مستشرقین کے اعتراضات بھی تشفی بخش جواب فراہم کیا گیا ہے۔مدلل، علمی اور معروضی اندز میں گفتگو کرتے ہوئے تدوین قرآن کی شفاف تاریخ کو پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف کا یہ احساس بجا ہے کہ مستشرقین کا زیر بحث اصل مسئلہ درحقیقت یہی ہے کہ قرآن محمد ﷺ کی تصنیف ہے جبکہ مسلمان کسی بھی طرح اس کے قائل نہیں ہیں۔ (ص۲۳۸) مستشرقین اس پہلو سے بھی قرآن پر حملہ آور ہوتے ہیں کہ اس کے متعدد الفاظ کے بارے میں کاتبین وحی کو سہو ہوگیا ہے لہٰذا ان کی اصلاح ہونی چاہیے۔اس فکر کا سب سے نمائندہ نام جے اے بیلائی ہے۔
محمد مہر علی کی تصنیف کا ایک اور اہم باب ’’مستشرقین کے تراجم قرآن‘‘ کا محاکمہ بھی کتاب میں شامل ہے۔اس میں مستشرقین کے تراجم قرآن کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لاطینی زبان میں مستشرق کے اولین ترجمہ قرآن کی حقیقت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ ’’اپنے خبث باطنی کی وجہ سے یہ ترجمہ قرآن نہ صرف یہ کہ حد درجہ جانب دارانہ ہے بلکہ بیشتر مقامات پر مسخ سے بھی داغ دار ہے، یوں کہہ لیجیے کہ یہ سرے سے ترجمہ ہے ہی نہیں بلکہ اپنے الفاظ میں قرآن کی آزادانہ تعبیر ہے‘‘۔ (ص۲۴۱) تاہم یورپ کے پاس تقریباً پانچ صدیوں تک تنہا یا اہم ترین ترجمہ قرآن صرف یہی رہا۔ا س سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ یہی لاطینی ترجمہ جدید یورپی زبانوں میں تحریک تراجم قرآن کی بنیاد وماخذ قرار پایا۔ اس ضمن میں فاضل مصنف نے یورپین زبانوں میں اولین تراجم قرآن کی اجمالی تاریخ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ یہ تمام تراجم واضح طور پر غیر معیاری، غیر صحیح اور پر از اغلاط ہیں۔ان سب کا مقصود اسلام اور قرآن کی اعلانیہ تردید رہا ہے۔اس کے بعد جارج سیل کے انگریزی ترجمہ قرآن میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ ترجمہ سیکڑوں بار چھپ چکا ہے اور سب سے زیادہ متداول رہا ہے کیونکہ اسلام اور قرآن کی تصویر مسخ کرنے اور انہیں سب وشتم کا نشانہ بنانے کے اپنے ہدف میں یہ ترجمہ بالخصوص کامیاب رہا ہے‘‘۔(ص۲۴۷) اس کے بعد مستشرقین کے فریب اور در پردہ سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے تراجم کے صریح نقص کی نشان دہی کی ہے۔اس ضمن مین پامر، راڈویل، آربری وغیرہ کے تراجم میں نقائص اوربعض واضح غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مندرجہ پانچ عناوین کے تحت اس کی متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔
۱۔عیسائی مذہبی اصطلاحات کا استعمال جو قرآن کے حقیقی معنیٰ ومفہوم کو کچھ کا کچھ کردیتا ہے۔۲۔ اصل معانی ومطالب میں براہ راست تحریفات۔ ۳۔ عربی محاورات وتراکیب کی عدم سمجھ کے باعث پیدا غلطیاں۔۴۔ اصل متن میں آزادانہ حذف واضافہ۔۵۔ لاپروائی پر مبنی غلطیاں۔
اس کتاب کے آخر میں پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی حال ہی شائع شدہ اہم تصنیف ’’اسلام اہل مغرب کی نظر میں‘‘ کے تین مقالات بھی شامل ہیں۔ان میں سے دو پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے قلم سے ہیں اور ان کی ایک کتاب کی تلخیص جناب زریاب احمد فلاحی مصنف کتاب کے قلم سے ہے۔چونکہ ان مقالات کا تجزیہ اس کتاب کے تعارف میں پہلے ہی آچکا ہے اس لیے یہاں ان سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔
فاضل مصنف جناب زریاب احمد فلاحی علمی حلقے کی جانب سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ان قیمتی مواد کی تلخیص اردو داں قارئین کے لیے پیش کردی ہیں۔ اس کے مطالعہ سے قرآن مجید اور سیرت طیبہ کے حوالے سے استشراق کے ناپاک عزائم، معاندانہ رویہ اور متعصبانہ اپروچ کا علم ہوتا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ معروضیت اور حقیقت کی جستجو کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ان کا مطالعہ اسلام کس قدر جانب دارانہ اور متعصبانہ ہے۔ تدوین وترتیب قرآن، متن قرآن کے سلسلے میں وہ کس قدر تذبذب کا شکار ہیں اور اسے انسانی تصنیف ثابت کرنے کی کوشش میں کیسے کیسے احمقانہ اعتراضات کرتے ہیں اور اپنے مزعومات باطل کو بحث وتحقیق کے خوش نما لبادہ میں پیش کرکے سادہ لوح عوام کو فریب میں مبتلا رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ استشراق کا مطالعہِ اسلام سراسر اسلام دشمنی اور عصبیت پر مبنی ہے، وہ حقیقت کی جستجو کے بجائے اپنے مزعومات کے حق میں دلائل کے متلاشی رہتے ہیں۔ان کی کوششوں کا ماحصل یہ ہے کہ وہ قرآن کی حقانیت، اس کی آفاقیت اور ابدی تعلیمات کو محدود کرسکیں۔ لیکن علماء اسلام نے ان کے اعتراضات کا پردہ فاش کرتے ہوئے مدلل اور علمی انداز میں ان کے جوابات فراہم کیے ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ علماء اسلام نے ان کتابوں میں معذرت خواہانہ اور دفاعی اسلوب اختیار نہ کرکے اقدامی انداز اختیار کیا ہے۔ مصطفی الاعظمی، محمد مہر علی اور پروفیسر عبد الرحیم قدوائی کی یہ کاوشیں یقیناً قابل قدر ہیں۔انگریزی داں طبقہ کو براہ راست ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024