اسرائیل و امریکہ : جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

حماس کی کامیاب مزاحمت سے یہودی ریاست میں ناکامی کا احساس بڑھ رہا ہے

ڈاکٹر سلیم خان

 

غزہ پر اسرائیلی بمباری کو دیکھ کر ہر انصاف پسند فرد اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے کہ آخر ظلم و جبر کی یہ آگ کیسے سرد ہو گی؟ اس سوال پر مختلف جہتوں سے غور کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر یہ سوال کیا جائے کسی بھیڑیے کا خون خرابہ کیسے بند ہو گا تو اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ جب اس کو شکار میں کام آنے والے دانتوں سے محروم کر دیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ صہیونی نظریہ کی شہ رگ کہاں ہے؟ اس کو قوت وتوانائی کون فراہم کرتا ہے؟ صہیونیت کے حامیوں کی فہرست طویل ہے مگر سر فہرست امریکہ کا نام آتا ہے۔ بے شمار امریکی مفادات چونکہ اسرائیل سے وابستہ ہیں اس لیے یہ امکان تو بہت کم ہے کہ اسرائیل کے تعلق سے اس کی پالیسی یکسر بدل جائے لیکن اس میں اتار چڑھاو آتا رہا ہے اور اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ سابق صدر براک اوباما کے زمانے میں یہ تعلقات خاصے سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان میں غیر معمولی گرم جوشی پیدا کردی اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے باجگزار عرب ممالک کے تعلقات کا انحصار بھی اسی سرد وگرم موسم پر ہوتا ہے کیونکہ ان بیچاروں کے نزدیک اپنے سیاسی آقا کے چشم ابرو کا اشارہ ہی راحتِ جاں ہے۔ صدر جو بائیڈن سے امید تھی کہ وہ براک اوباما کی روش اختیار کریں گے لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی اپنے مخصوص ومحتاط انداز میں ٹرمپ کی پالیسی کو آگے بڑھایا۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے عالمی طرز فکر میں تبدیلی کے لیے اسرائیل کو امریکی یورپی کمان سے نکال کر مشرق وسطیٰ کی امریکی مرکزی کمان یعنی (CENTCOM) میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا مگر حماس کا راکٹ حملہ اس پیش رفت میں رکاوٹ بن گیا۔
امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے مذکورہ فیصلے سے متعلق امید افزا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ماہِ اپریل میں بتایا تھا کہ 2020 کے اندر کئی مسلمان اکثریتی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور یونیفائیڈ کمانڈ منصوبہ کی نئی صف بندی کے تحت اسرائیل کو یورپی کمان سے نکال کر مرکزی کمان میں شامل کرنے کے فیصلے سے علاقائی استحکام اور سیکورٹی تعاون کے نئے مواقع جنم لیں گے۔ فلسطین اوراسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد مذکورہ فیصلے کو موقوف کرتے ہوئے پینٹاگان نے خود کو اس معاملے سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسرائیل میں جو کچھ ہو رہا ہے، پینٹاگان کو اس سے کوئی سروکار نہیں نیز گزشتہ برس اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کرنے والی کئی عرب ممالک بھی فی الحال CENTCON کا حصہ بننے میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں‘‘ ویسے اردن، عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، لبنان اور چند دوسرے ملک ’سینٹ کام‘ میں شامل ہیں اور وہ سب بھی اپنے عوام کے دباو میں امریکہ کی مرضی کے خلاف اسرائیل کی تنقید کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ حماس کی راکٹوں کا کمال ہے کہ اس نے بائیڈن انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس دلایا اور اس کے حامیوں کا دماغ درست کیا ہے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے اس کے سبب سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو یہ بیان دینے کا موقع ملا کہ امریکی خارجہ پالیسی ’کمزور‘ہے۔ جو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور دنیا کے لیے خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک نازک موقع پر پومپیو کے اس بیان نے نہ صرف ریپبلکن پارٹی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا بلکہ بائیڈن کی مسلمان دوستی کا دامن بھی تارتار کردیا۔ یہ سب ہوجانے کے بعد بائیڈن کو مسلمانوں کا ہمدرد سمجھنے والے حکمرانوں اور ان کا ڈھول بجانے والے زر خرید قلمکاروں کو گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے اس لیے کہ ایسے مواقع سامانِ عبرت فراہم کرتے ہیں اور جو لوگ انہیں گنوا دیتے ہیں انہیں اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اسرائیل جیسے دہشت گرد کے حامی پومپیو کا یہ ماتم علامہ اقبال کے ضرب المثل شعر کی یاد دلاتا ہے (ترمیم میں معذرت کے ساتھ، اس میں ’فتح ‘محمود عباس کی پی ایل او کا مخفف اور بینجمن اسرائیلی وزیر اعظم ہیں) ؎
فتح کے آہوں سے ٹوٹا نہ بینجمن کا طِلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
پومپیو تو خیر ٹرمپ کے ساتھ رخصت ہو گئے لیکن موجودہ وزیر خارجہ نے اپنے نائب ہیڈی امر کو فوری طور اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے تشدد کے خاتمے کا کام سونپا۔ اس سے قبل امریکہ تشدد کا خاتمہ کرنے کے بجائے اپنے مخالف کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر تشدد کرنے کو فرض عین سمجھتا تھا۔ انٹونی بلنکن نے آگے بڑھنے سے قبل تمام فریقوں کو تشدد ختم کرنے، اور کشیدگی کم کر کے امن قائم کرنے کی تلقین کی۔ اس تمام کے اندر اسرائیل چھپا ہوا ہے۔ اسرائیل کے دفاع کا حق والا پرانا راگ الاپنے کے بعد انہوں نے اس بار یہ خوشگوار اضافہ بھی کیا کہ فلسطینیوں کو حق ہے کہ وہ تحفظ اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ انہوں نے اس بار اسرائیل کے علاوہ مغربی کنارے اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دل دہلانے والی تصاویر آرہی ہیں اور عام شہریوں کی جانوں کا زیاں ایک المیہ ہے۔ ویسے یہ نہایت کمزور موقف ہے لیکن ماضی میں امریکہ کے ذریعہ سامنے آنے والے بیانات سے اس کا موازنہ ایک مثبت تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل نہ صرف سفارتی وحربی معاملات میں امریکہ کا محتاج ہے بلکہ اس کی معیشت بھی امریکہ کے زیر بار ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے اسرائیل کو چار ارب ڈالر کی فوجی امداد دی ہے اور مزید آٹھ ارب ڈالر کے قرضوں کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اس کے باوجود رائے عامہ میں اپنی ساکھ بچانے کی خاطر امریکی صدور اسرائیل پر تنقید کرنے کے معاملے بڑی احتیاط کرتے ہیں۔ جو بائیڈن نے سنا ہے کہ بڑی ہمت یکجا کر کے یاہو سے یروشلم کے بارے میں کہا کہ دنیا بھر میں اہلِ مذہب کے لیے اتنی اہمیت رکھنے والے شہر کو جائے امن ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے اسرائیل جیسے دہشت گرد کا ناجائز دارالخلافہ امن کا گہوارا کیوں کر ہو سکتا ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس میں ڈیموکریٹس کے اہم نمائندے بھی اسرائیل کے ’دفاع کا حق‘ والے احمقانہ موقف کی حمایت کرتے ہیں لیکن بعض ارکان نے اسرائیلی حملوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا ہے۔
اس کی ایک مثال کے طور پر ریاست وسکونسن سے ایوانِ نمائندگان کے رکن مارک پوکن ہیں۔ انہوں نے حماس کے راکٹوں کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی تشدد بشمول غیر قانونی بے دخلی، مظاہرین پر حملوں اور فلسطینی بچوں کے قتل کو نظر انداز کرنے پر تنقید کرنے کے بعد امریکہ کو اس تشدد کی مالی معاونت سے باز رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔ نیویارک میں اسرائیل کے ایک بڑے حامی کو شکست دینے والے ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس جمال باؤمین نے حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور حماس کے زیرِ انتظام غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں پر بھی تنقید کی ہے۔ جمال باؤمین نے کہا کہ ’’نسلوں سے ان گھروں میں بسنے والے خاندانوں کو وہاں سے بے دخل کرنا امن کا اقدام نہیں ہے۔ عبادت کے دوران طاقت کا مظاہرہ امن کا اقدام نہیں۔ مقدس مقامات کو تباہ کرنا امن کا اقدام نہیں۔ حماس کے راکٹ حملے امن کا اقدام نہیں۔ اسرائیلی حکومت کے فضائی حملے بھی امن کا اقدام نہیں۔” رکن کانگریس مریم نیومین نے لکھا کہ فلسطینی خاندانوں کو الشیخ جراح میں رہنے کا حق ہے۔ ہم اس حق کی حمایت کرتے ہیں‘‘
وسکونسن اور باومین نے تو خیر ایک غیر ضروری توازن قائم رکھنے کی کوشش کی مگر خاتون رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کارٹیز اور ان کی دو ڈیموکریٹ ہمنواوں راشدہ طلیب اور الہان عمر نے اس تنازع میں دونوں فریقین کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے صرف اسرائیلی جارحیت کو نشانہ بنایا ہے۔ اوکاسیو کورٹیز نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی فوج کے ذریعہ پرتشدد طریقوں سے فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کو روکنے میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ پہلی مسلم رکن کانگریس راشدہ طلیب کے والدین کسی زمانے میں فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ آئے تھے۔ انتخاب سے قبل راشدہ طلیب نے کہاتھا کہ ’یہ وہ لمحہ تھا جس میں میں نے سوچا کہ میں رِنگ سے باہر رہوں یا رِنگ میں اتر کر لڑائی لڑوں۔ میں اپنے حلقے مشی گن کے باشندوں کو احساس دلانا چاہتی ہوں کہ کوئی ہے جو ان کی لڑائی لڑ سکتا ہے‘ حالیہ تصادم کے دوران راشدہ نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے سوال کیا کہ امریکہ، فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے نسل پرستانہ تشدد کی کب مذمت کرے گا؟ کیا آپ کی پالیسی بھی فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے والوں کی حمایت پر مبنی ہے؟ امریکہ کب تک نیتن یاہو کی نسل پرست حکومت اور نسل پرست ریاست کی حمایت کرتا رہے گا؟ ان چبھتے ہوئے سوالات کے ذریعہ راشدہ نے اپنے فلسطینی ہونے کا حق ادا کر دیا، ان کے اس جرأتمندانہ بیان پر جگر مرادآبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
‏مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں
راشدہ طلیب کی ہمنوا الہان عمر کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کر کے کینیا میں تارکین وطن کے کیمپ سے ہوتا ہوا امریکی ریاست منیسوٹا پہنچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کا درد محسوس کرتی ہیں۔ الہان عمر کو نہ صرف پہلی مسلمان رکن کانگریس بلکہ اولین صومالی امریکن قانون ساز بننے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے بھی اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے غزہ کے راکٹ کی مذمت کو ضروری نہیں سمجھا۔ یہ تبدیلی صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ڈیموکریٹک رکن کانگریس مریم نیومین نے لکھا کہ فلسطینی خاندانوں کو الشیخ جراح میں رہنے کا حق ہے۔ ہم ان کے اس حق کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کہ امریکی ڈیموکریٹس کی ایک بڑی تعداد نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ذریعہ کیے جانے والے تشدد کو روکنے کی خاطر موثر اقدامات کرے۔
امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون رکنِ کانگریس کوری بش نے کہا ہے کہ اسرائیل کے فلسطینی اراضی پر قبضے کی خاطر امریکی پیسہ استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ امریکی امداد کو فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے لیے استعمال کرنے کی مخالف ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرز (جو صدارتی امیدوار بھی تھے) نے اپنے ملک کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں فلسطینی خاندانوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کےحلیف انتہا پسند گروپوں کی کارروائیوں کو روکیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کو زبردستی روکیں اور انہیں فلسیطنی خاندانوں کو بے گھر کرنے سے باز رکھیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد ڈیموکریٹک سیاست دانوں نے یروشلم اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی بابت من مانی اسرائیلی دھاندلی کی مذمت کی۔ اسرائیل کی مخالفت کرنے والوں میں انڈیانا پولس کے آنڈرے کارسن اورمشی گن کی ڈیبی ڈنگل شامل ہیں۔ اسرائیل نواز امریکہ کے ایوان پارلیمان کی صدائے احتجاج پر اسرائیل کی حالت اس شعر کی مانند ہوگئی ہے؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
امریکہ میں رائے عامہ کی یہ تبدیلی صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک معروف محقق عرب امریکن انسٹیٹیوٹ کے صدر جیمز زاگبی کے مطابق انہوں نے پچھلے 40 سالوں میں کبھی بھی اس بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت نہیں دیکھی۔ اس پیش رفت نے ظاہر ہے آنکھیں موند کر اسرائیل کی حمایت کرنے والی سفید فام انتہا پسند سرمایہ داروں کی جماعت ریپبلکن کو فکر مند کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ میں تقریباً سارے ریپبلکن اراکین نے صدر بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیلی دفاع کے حق کی ’’دو ٹوک‘‘ حمایت کریں اور ایران کے ساتھ جوہری پروگرام سے متعلق عائد معاشی پابندیوں میں راحت پر ہونے والے گفت وشنید کو ’فی الفور‘ ختم کر دیں۔ ریپبلکنز کا دعویٰ ہے کہ ایران اسرائیل کے خلاف حماس کی دہشت گرد سرگرمیوں میں ’مدد‘ کر رہا ہے۔ صدر بائیڈن کے نام 44 ریپبلکن سینیٹرز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’چند روز سے غزہ کے فلسطینی دہشت گردوں نے جنہیں ایران فنڈنگ کرتا ہے اسرائیل پر راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘‘۔
یہ سینیٹرز امریکہ کے قریب ترین اتحادی اسرائیل کے خلاف نام نہاد دہشت گرد سرگرمیوں میں ایران کی مدد کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کہ وہ خود تو اپنے حلیف کی کھل کر مدد کرنے کی وکالت کرتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ مخالفین کی مدد نہیں کی جائے۔ ان بیچاروں کو اپنے دوغلے پن کا بھی احساس نہیں ہے۔ ریپبلکنز کو ایران ہر جگہ اسی طرح دکھائی دیتا ہے جیسے بی جے پی کے بھکتوں کو جا بجا پاکستان نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دور اندیش ڈونلڈ ٹرمپ کو بائیڈن کی اسرائیلی حمایت میں کمی سے اسرائیل پر نئے حملوں کا امکان بھی نظرآ نے لگتا ہے۔ ٹرمپ کو فی الحال حماس کے راکٹ حملوں کی فکر تو ستا رہی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ تباہ کن اسرائیلی بمباری پر کوئی تشویش نہیں ہے حالانکہ اصل مسئلہ تو وہ میزائل حملے ہی ہیں۔
مصر کے ذریعہ جنگ بندی کی کوششوں کو اسرائیل مسترد کر چکا ہے مگراس بابت اسرائیلی فوج میں خفیہ شعبے کے سابق چیف اور امریکہ کے فوجی اتاشی عموس یالڈن نے چونکانے والے انکشافات کیے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے صہیونی فیڈریشن کی ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے کہہ دیا تو اسرائیل غزہ پر حملے روک دے گا۔ عموس نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن انتظامیہ کی تل ابیب کے ذریعہ کی جانے والی بمباری پر بے چینی بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے 48 گھنٹوں میں اس مہم کو روک دیا جائے۔ عموس یالڈن کی اس ویڈیو کو نشر ہونے کے کچھ دیر بعد ہٹا لیا گیا ۔یہ نشست جنوبی افریقہ کے اندر اسرائیل کی غزہ میں بمباری کے خلاف پیدا ہونے والے غم وغصے کو کم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ عموس نے یہ بھی کہا بائیڈن نے ٹرمپ کی مانند اسرائیل کو بلینک چیک نہیں دیا ہے۔ وہ ہفتہ کے آخر تک جنگ بندی کروادیں گے۔ افسوس کہ یہ توقع غلط ثابت ہو گئی۔
معروف فلسطینی مبصر مریم برغوطی نے اس خبر پر تبصرے میں لکھا کہ اسرائیل اپنے حملے اس لیے بند نہیں کرے گا کیونکہ وہ انسانی جان کا احترام کرتا ہے یا یہ جنگی جرائم کے ارتکاب کو مذموم سمجھتا ہے بلکہ وہ صرف عالمی دباو کے تحت ہی اس کو روک سکتا ہے۔ اسرائیل جس طرح بین الاقوامی دباو میں آجاتا ہے اسی طرح بائیڈن انتظامیہ پر بھی اپنے 25 ارکان پارلیمان کا دباو ہے جنہوں نے خط لکھ کر شیخ جراح کی بیدخلی کو سفارتی طاقت سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی طرح کا دباو جنوبی افریقہ کی حکومت پر بھی ہے۔ وہاں کی قومی کابینہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں پر وحشیانہ بربریت کو بند کر کے سیاسی گفتگو کی عالمی کوششوں کا پاس ولحاظ کرے۔
جنوبی افریقہ کے یہودیوں کو افسوس ہے کہ سرکاری بیان میں غزہ کے راکٹ حملے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی اور انہیں اندیشہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کا پوتا مانڈلا منڈیلہ کہیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع نہ کر دے۔ جنوبی افریقہ کا حزب اقتدار صہیونی فیڈریشن کو چونکہ اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے اندر نسل پرستی کی حامی اور اسرائیل کی پروپگنڈہ مشین سمجھتا ہے اس لیے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
اسرائیل کے اندر اس جنگ کے حوالے سے ناکامی کا احساس بڑھنے لگا ہے۔ عبرانی زبان کے سب سے قدیم اخبار یدیعوت اہورونوت کے معمر سیاسی مبصر ناہم برنیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے 50 گھنٹوں میں تباہی کا وہ ہدف حاصل کر لیا جس کے لیے 2014 میں 50 دن لگے تھے۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ حماس زمین یا میزائل کی جنگ نہیں لڑ رہا ہے بلکہ اس کا ہدف شعور کی بیداری ہے اور وہ اس جنگ کو جیت چکا ہے۔ جنگ بندی کے بعد حماس کے ذریعہ اسی فتح کا دعویٰ کیا جائے گا۔ اخبار لکھتا ہے کہ غزہ پر زبردست بمباری کے باوجود یروشلم اور گش ڈان پر راکٹ حملے جاری رکھ کر حماس نے عرب دنیا میں خود کو یروشلم کی مقدس عبادتگاہ (مسجد اقصیٰ) کے ایسے محافظ کی حیثیت سے پیش کیا ہے جس نے اسرائیل میں آگ لگا دی۔ مضمون نگار کے مطابق اسرائیل کی مہم جوئی بے مقصد ہے۔ وہ نہ تو حماس کے ساتھ کوئی طویل المدت معاہدہ کر کے حالات کو بدلنا چاہتا ہے اور نہ اسے غزہ سے نکال سکتا ہے۔
ادارتی مضمون میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ اس تنازع کا بنیادی سبب یروشلم تھا لیکن اب نہ تو مسجد اقصیٰ پر کوئی تصادم ہے نہ شیخ جراح کے مظاہرے ہیں اور نہ یوم یروشلم کا جلوس ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا جنگ کسی اور براعظم میں ہو رہی ہے۔ برنیا کے مضمون کا آخری جملہ قابلِ توجہ ہونے کے ساتھ ساتھ چونکانے والا ہے اس نے لکھا ’’ہوسکتا یہ جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ خاتمے کی ابتدا ہو‘‘۔ ان حالات میں اسرائیل کے خاتمے کی ابتدا لکھنے کی جرأت ناہم برنیا نہیں کر سکتا۔ فی الحال اسرائیل کے اندر مایوسی کا جو عالم ہے اس کا اندازہ وہاں کے تجزیہ نگاروں سے کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی ریاست کے سرکاری اور نجی میڈیا میں غزہ کے اندر جاری لڑائی کے بارے میں یہ لکھا جا رہا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے صہیونی ریاست کو غزہ کے محاذ پر تاریخ کی بد ترین شکست سے دوچار کر دیا ہے۔
انگریزی میں اسرائیل کے معروف اخبار ’ہارٹز‘کے فوجی تجزیہ نگار عموس ارئیل کے مطابق اسرائیل نمائشی فتح کی تلاش میں ہے جب کہ محاذ پر حماس کو اسرائیل پر واضح برتری حاصل ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں حماس کو کمزور کرنے کے لیے جو اہداف مقرر کیے ہیں وہ پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ اسرئیل نے وزیر اعظم نیتن یاہو سے غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائی کو وسعت دینے یا جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے فیصلہ کن اقدام کرنے کی امید کی ہے۔ اسرائیلی دانشور نے تسلیم کیا ہے کہ حماس نے بڑی تعداد میں‌ راکٹ باری کر کے اسرائیلی فوجی مشقوں کو محدود کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حماس کے راکٹ حملوں کے بعد اگر سیاسی اور عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ فوجی کارروائی میں اضافے سے حماس کو کمزور کیا جا سکتا ہے کہ وہ غزہ کی بمباری میں اضافہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کے اندر فوج بھیجنے کی جرأت اپنے اندر نہیں رکھتا اور فتح کا پرچم ہوا میں نہیں زمین پر گاڑا جاتا ہے۔ اسرائیل ہوا میں تو خوب اڑتا ہے مگر زمین پر پہنچتے ہی اس کے قدم اکھڑ جاتے ہیں۔ اپنے قدم جمانے کی خاطر اسے امریکہ جیسے سرپرست کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اب وہاں شگاف پڑنے لگا ہے جو اسرائیل کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اس لیے وہ دن دور نہیں جب لوگ دنیا کے نقشے پر سوویت یونین کی مانند اسرائیل کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں گے تو بے نیل مرام واپس لوٹیں گے کیونکہ بقول ثاقب لکھنوی؎
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
***

اگر ہم کہتے ہیں کہ اتر اکھنڈ حکومت نے ملک میں کورونا پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے تو پھر اس میں کوئی غلطی نہیں ہو گی۔ ملک بھر میں دوبارہ کورونا لہر کے آغاز کے بعد بھی اتر اکھنڈ حکومت نے ہردوار میں کمبھ میلہ کا اہتمام کر کے جس طرح سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہے اس کے لیے اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اتر اکھنڈ حکومت نے انسانیت کے خلاف کھلم کھلا گھناؤنا جرم کیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021