اسرائیل۔غزہ جنگ بندی:کیا دنیا صہیونی مظالم کو فراموش کرپائے گی؟
مزاحمت کے جذبے اورحماس کو ختم کرنےکے عزائم ناکام
نور اللہ جاوید، کولکاتا
نیتن یاہو ہزاروں افراد کا قتل کرنے کے بعد بھی یہودیوں کا ہیرو نہیں بن سکا
معاہدہ میں ‘ساختیاتی نسل کشی’ کے خاتمے یا پھر طویل مدتی حل کا کوئی ذکر نہیں
!ڈونالڈ ٹرمپ کی دل چسپی امن کے لیے یا مغربی کنارہ کے مزید علاقے اسرائیل کے سپرد کرنے کی سازش
15مہینوں کی جنگ نے عرب دنیا کی بے وقعتی کو اجاگر کردیا۔غزہ کی بازآبادکاری پر 50بلین ڈالر کا صرفہ ہونے کا اندازہ
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد غزہ میں 15 مہینوں سے جاری انتہائی وحشیانہ اور ہول ناک نسل کشی کے سلسلے پر روک لگنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ تاہم، ہزاروں بے قصور نوجوانوں، بچوں اور خواتین کا قتل عام کرنے والے نیتن یاہو کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ 15 مہینے تک غزہ کو تباہ و برباد کرنے کے بعد بھی وہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ غیر مقبول لیڈر بن گیا ہے۔ 15 مہینے قبل اس نے اس عزم کے ساتھ غزہ پر چڑھائی کی تھی کہ وہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دے گا اور حماس کے وجود کو ختم کر دے گا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اسرائیل کو قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں اسی حماس کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا جسے وہ جینے کا حق بھی دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
اسرائیل نے انتہائی ظالمانہ، انسانیت سوز اور جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حماس کی اعلیٰ قیادت اور عام فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ لیکن 15 مہینے تک روزانہ بمباری، قتل و غارت گری، دھمکیوں، قید، فاقہ کشی، بیماری اور دیگر مشکلات کے باوجود اسرائیل فلسطینیوں کے جذبۂ حریت کو ذرہ برابر بھی سرد نہ کرسکا۔ دنیا کی کوئی بھی قوم ان حالات میں جینے کا تصور تک نہیں کرسکتی تھی، مگر غزہ کے عوام نے نہ صرف جینا جاری رکھا بلکہ اپنے حوصلے اور جدوجہد سے دنیا کو حیران کر دیا۔
غزہ کے عوام نے دنیا کو یاد دلایا کہ قابض، جابر اور طاغوتی قوتوں کی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود انسانیت غالب رہے گی۔ دنیا کو فلسطینیوں کی ثابت قدم مزاحمت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ قابض اور جابر قوتوں کا مقصد فلسطینیوں کے عزم اور جذبے کو توڑنا تھا۔ پچھلے 75 سالوں سے قابضین یہی سب کر رہے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر دنیا بھر میں خوشی کا ماحول ہے اور ہر کوئی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ اسے اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے جبکہ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ معاہدہ اصل میں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
تاہم، سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسی کیا ہوگی؟ آیا وہ اسرائیل کی جارحیت کو لگام دے پائیں گے یا گریٹر اسرائیل کے خواب کی تعبیر میں اپنا حصہ ڈالیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آنے والے وقت میں خطے کے حالات کا رخ متعین کریں گے۔
گزشتہ 15 مہینوں کی جنگ نے دنیا بھر میں اہم تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ اسرائیل کی بربریت اور غزہ کی عوام کی مزاحمت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آزادی اور خود مختاری کا جذبہ ناقابل تسخیر ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب داری اور جھوٹے بیانیے اب کھل کر دنیا کے سامنے آچکے ہیں اور لوگ نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔
بہت ہی مشہور مقولہ ہے کہ”تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے“۔ محض 80 سال سے بھی کم عرصے میں مغرب نے ایک اور خون خوار عفریت کو موت اور تباہی پھیلانے کے قابل بنا دیا ہے اور دنیا ایک بار پھر ہولوکاسٹ کے مناظر دیکھ رہی ہے۔ مگر اس مرتبہ ماضی کے ظالم اور مظلوم دونوں ایک ہی صفحہ پر ہیں اور غزہ کے مسلمان اس کے شکاری ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ماضی میں مغرب نے جس شرمندگی کا مظاہرہ کیا تھا وہ چھلاوا اور دکھلاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، وہ ماضی میں بھی ظالم تھے اور آج بھی ظالم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ستمبر 2024 میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو کے وزیر خارجہ Amery Browne نے کہا تھا کہ ایک واضح پیغام ہے کہ ”اس دنیا میں کچھ طاقت ور لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ فلسطینی بچے سفید فام نسل کے بچوں کے مقابلے میں قابل رحم نہیں ہیں۔ فلسطین وہ خطہ تھا جہاں کئی صدیوں سے مسلمان، یہودی اور عیسائی دوستانہ زندگی گزار رہے تھے مگر 76 سال قبل مغرب نے اپنی سام دشمنی کو ایشیاء میں برآمد کر دیا جس کی وجہ سے اپنے ہی وطن میں فلسطینی مسلمان، عرب عیسائی اور یہودی بے وطن ہوگئے اور 7 دہائیوں سے دوسرے درجے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کا حملہ وحشیانہ اور دہشت گردانہ نہیں بلکہ آزادی اور خود مختاری کے حصول کے لیے تھا۔ اس حملے کو جواز بناکر اسرائیل گزشتہ 15 مہینوں سے بہیمانہ اور وحشیانہ کارروائیاں کر رہا ہے۔
اس کے باوجود اگر کوئی اسرائیل کی مظلوم ہونے کی داستان کو تسلیم کرتا ہے تو ایسے شخص کے ذہنی حالت پر شک ہی کیا جاسکتا ہے۔ 50 ہزار عام شہریوں اور 17 ہزار شیر خوار معصوم بچوں کی ہلاکت اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ، یحییٰ سنوار اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے قتل کے بعد بھی اسرائیل کی خونریزی کو تسکین نہیں ہوئی اور اس نے جنگی جرائم کا سلسلہ جاری رکھا۔ مغربی اقوام اسلحہ بھیجتی رہیں اور مظاہرین کو ”یہودی دشمن” کا نام دیتی رہیں مگر اب دنیا بدل چکی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی جو بہت حد تک مغربی اقوام کی دین ہے، اس نے ہی اسرائیل کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ چنانچہ امریکہ کی کولمبیا یورنیوسٹی سے شروع ہونے والا مظاہرہ یورپ بھر کی یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔ 15 برسوں تک امریکہ کی وزارت خارجہ میں سفارتی خدمات اور امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ہالارریت جنہوں اسرائیلی جارحیت کی تائید کرنے پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے، انہوں نے جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد الجزیرہ انگریزی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں وہ کروڑوں دلوں کی آواز ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کے سبک دوش ہونے والے سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلینکن کو غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن کارروائی کی امریکی حمایت انہیں زندگی بھر پریشان کرے گی۔ انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میں سفارت کار بنی تو میں نے آئین کے دفاع کا حلف اٹھاتے ہوئے یہ عزم کیا تھا کہ اسلحے کے بہاؤ کو جاری رکھنے کے عمل کو روکا جائے گا مگر اس وقت امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ ناقابل معافی ہے کیوں کہ وہ مجرمانہ عمل ہے۔ رہرٹ اپنے اس طویل انٹرویو میں امریکی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ امریکہ کا قانون ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کو ہتھیار سپلائی نہیں کی جائے گی اس کے باوجود انٹونی بلینکن اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کرنے کے لیے مسلسل کوشش کرتا رہا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر کا شریک ہے۔
جنگ بندی کا معاہدہ سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟
بلاشبہ یہ معاہدہ انسانی نقطہ نظر سے بہت ہی زیادہ اہم ہے۔اس لیے دنیا بھر کی ریاستوں نے اس معاہدہ کا خیر مقدم کیا ہے مگر اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کے کابینی رفقا کے بیانات جو گزشتہ دو دنوں میں سامنے آئے ہیں، معاہدہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ جنگ بندی کا معاہدہ تین مرحلوں میں ہے۔ پہلے مرحلے میں قیدیوں کا تبادلہ ہے اس کا آغاز آج 19جنوری 2025 سے ہو گیا ہے۔ یہ مرحلہ اگلے 42 دنوں تک جاری رہے گا۔اس مدت میں قیدیوں کا تبادلہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا شامل ہے مگر اس معاہدہ کو لے کر تجزیہ نگاروں کی رائے مختلف ہے۔ زیادہ تر ماہرین جنگ بندی کے معاہدہ پر اس لیے شک و شبہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ چوں کہ یہ معاہدہ مرحلہ 2 اور 3 کی ضمانت نہیں دیتا، جہاں اسرائیلی افواج مکمل طور پر پٹی سے نکل جائیں گی، بے گھر فلسطینیوں کو پٹی کے تمام علاقوں میں واپس جانے کی اجازت ہوگی اور غزہ کی مکمل تعمیر نو کی جائے گی۔معاہدہ کے بعد اپنے پہلے ٹی وی خطاب میں نیتن یاہو نے جو بیانات دیے ہیں اس نے اس معاہدہ کے مستقبل کو مزید تاریک کردیا ہے۔ معاہدہ کو لے کر کئی بنیاد سوالات ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ جنہوں نے اپنی پہلی مدت صدارت میں فلسطین کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ابراہیمی معاہدہ کی پیش رفت میں فلسطینی عوام کی شمولیت کی اہمیت نہیں سمجھی، آخر انہوں نے ایک جنگی جنون میں مبتلا نیتن یاہو کو جنگ بندی کے لیے راضی کس طرح کیا؟ کیوں کہ ٹرمپ انتظامیہ 1967 کی سرحدوں کے ساتھ ایک مکمل خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام میں دل چسپی نہیں رکھتی اور اسرائیل کے مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کے منصوبے کے خلاف بھی نہیں ہے۔ درحقیقت کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کے بدلے میں نیتن یاہو سے مغربی کنارے کے بعض علاقوں کے الحاق کے لیے امریکی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔اگر یہ رپورٹیں درست ہیں تو پھر جنگ بندی کا معاہدہ فلسطینی عوام کے لیے کسی شکست سے کم نہیں ہے۔
نسل کشی کے 15 ماہ کے دوران غزہ نہ صرف ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے بلکہ اس کے سماجی، ثقافتی، فکری اور اقتصادی زندگی کے تانے بانے کو بھی تہس و نہس کر دیا ہے۔ غزہ پٹی کے بڑے حصے ناقابل رہائش ہیں۔ لوگ ان محلوں میں واپس نہیں جا سکتے جو زمین بوس ہو چکے ہیں، ایسی عمارتیں جن میں بہتا ہوا پانی نہیں، سیوریج کا کوئی نظام، یا بجلی اور ایندھن کی رسائی نہیں ہے۔ کوئی اسکول، یونیورسٹی، کلینک، یا ہسپتال نہیں بچا ہے، کوئی ادارہ باقی نہیں ہے۔معاشی نظام پوری طرح تباہ ہو چکا ہے اور لوگ بقا کے لیے مکمل طور پر غیر ملکی امداد پر منحصر ہو گئے ہیں۔ بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں اور بہت سے خاموش قاتل جیسے کہ اسرائیل کے بموں سے خارج ہونے والے زہریلے مادے غزہ کی فضا، مٹی اور پانی میں گردش کر رہے ہیں۔ہزاروں بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کم زور ہو چکی ہے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے سے قاصر ہے۔ اس تمام تر تباہی کے بعد فلسطینیوں کے لیے عام زندگی کیسے ممکن ہوگی؟ اس جنگ بندی کے معاہدے میں واضح نہیں ہے۔اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ گزشتہ 70 برسوں میں فلسطینیوں کی جو ”ساختیاتی نسل کشی“ کی جا رہی ہے اس پر روک کیسے لگی؟ یہ صرف اسرائیل کا ہی جرم نہیں ہے کہ اس نے گزشتہ 15 مہینوں میں وحشیانہ اور بہیمانہ کارروائی کر کے 50 ہزار سے زائد افراد کا قتل کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے دامن بھی لاکھوں فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان کے چہرے ظلم کی وجہ سے کریہہ ہوچکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ مذاکرات کے لیے 15مہینوں کی قتل و غارت گری، وحشیانہ کارروائی کا انتظار کیوں کیا گیا؟ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ اس معاہدے میں اسرائیل کے ذریعہ 7 دہائیوں سے کی جانے والی فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی روک تھام کے لیے کوئی بھی یقین دہانی نہیں ہے۔
”ساختی نسل کشی“ فلسطینی اس کو نکبہ سے یاد کرتے ہیں۔یہ 1948کے بعد سے ہی جاری ہے۔یہ ایک نوآبادیاتی ڈھانچہ ہے جس کے ذریعہ فلسطینیوں کی خودمختاری بتدریج ختم کی جارہی ہے۔انہیں اپنی زمین سے محروم کیا جارہا ہے۔بے دخلی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔اس میں بڑے پیمانے پر قتل عام، نقل مکانی اور بڑے پیمانے پر تباہی شامل ہے۔ اقتصادی ترقی کی روک تھام، فلسطینی تاریخ و ثقافت کو مٹانا،فلسطینی آبادی کی تقسیم،مقبوضہ علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق، آزادی اور وقار فراہم کرنے سے انکار بھی شامل ہے۔اس لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا جنگ بندی، چاہے وہ تینوں مراحل سے گزرے، کیا اس ساختی نسل کشی کو ختم کر سکتی ہے؟ جواب واضح طور پر نفی میں ہے کیونکہ جنگ بندی معاہدے میں اسرائیل کی ساختی نسل کشی کے ان دیگر آلات میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں ہے۔ ساختی نسل کشی کا خاتمہ اسرائیل پر سنجیدہ اور مستقل دباؤ بنائے بغیر اور دنیا کے تمام ممالک کی طرف سے اسرائیل کے معاشی مقاطعے اور اسے سیاسی طور پر یکا و تنہا کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔
غزہ کی باز آباد کاری کیسے ہوگی؟
یہ سوال کافی اہم ہے کہ 15 مہینوں کی وحشیانہ کارروائی کے بعد غزہ جو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے اس کی بازآباد کاری کیسے ہوگی؟ اسرائیل نے طویل عرصے سے محصور فلسطینی انکلیو کو بنجر زمین میں تبدیل کر دیا ہے۔ دسمبر کے وسط میں سیٹلائٹ امیجز کے UNOSAT کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے حملے کے آغاز کے بعد سے غزہ میں 170,812 چھوٹی بڑی عمارتوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ یہ تعداد انکلیو کی تمام عمارتوں کا 69 فیصد اور تقریباً 123,245 ہاؤسنگ یونٹس پر مشتمل ہے۔ اس میں 90 فیصد اسکولوں کی عمارتیں اور غزہ کی ایک یونیورسٹی شامل ہے۔ اس میں (PDF) رفح میوزیم، جامعہ الازہر میں جواہر لال نہرو لائبریری اور غزہ میونسپل لائبریری شامل ہیں۔ اس میں غزہ کی عظیم مسجد اور سینٹ پورفیریئس کا چرچ بھی شامل ہے۔ اس میں غزہ کے بیشتر ہسپتال اور اس کے تقریباً 70 فیصد مراکز صحت شامل ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جنگ میں غزہ کا 70 فیصد زرعی انفراسٹرکچر منظم طریقے سے یا تو گولہ باری سے یا بھاری فوجی گاڑیوں کی آمد و رفت سے تباہ ہو گیا ہے۔ نتیجتاً غزہ میں خوراک کی پیداوار 2024 کے دوران کم ترین سطح پر رہی ہے۔ انکلیو کی پوری آبادی اب خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔غزہ کی آبادی کی اکثریت کو بھوک کی انتہائی نازک سطح کا سامنا ہے۔اپریل 2024 میں عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے مشترکہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کی 92 فیصد سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔کم از کم 75 فیصد ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ الیکٹرسٹی ڈسٹریبیوشن کمپنی اپنی 90 فیصد مشینری اور آلات کھو چکی ہے اور اسے 450 ملین ڈالر کا نقصان کا سامنا ہے۔ تین میں سے صرف ایک ڈی سالینیشن پلانٹ کام کر رہا ہے۔یہ پلانٹ غزہ کو پانی کی ضرورت کا صرف 7 فیصد فراہم کر رہا ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ایندھن اور بجلی کی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں گندے پانی کی صفائی کے تمام پلانٹس اور سیوریج پمپنگ اسٹیشنس بند ہوچکے ہیں۔ جون 2024 میں لانسیٹ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق غزہ پر اسرائیل کے حملے میں ہلاکتوں کی اصل تعداد 186,000 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس قتل عام میں ہلاک ہونے والوں میں فن کار اور مصنف بھی شامل ہیں، جیسا کہ والا الفرانجی جو دسمبر 2024 میں ایک فضائی حملے میں شہید ہو گئے ہیں اور رفعت الایریر جیسے شاعر بھی شامل ہیں۔یہ دونوں نئی نسل کی آواز اور مزاحمت کی ایک قابل احترام علامت تھے۔مرنے والوں میں اسکول کے ہزاروں اساتذہ، یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلبہ بھی شامل ہیں۔یہ وہ بچے اور نوجوان تھے جنہیں نے غزہ کا مستقبل بننا تھا۔مرنے والوں کی اس حیران کن تعداد میں 130 سے زیادہ صحافی بھی شامل ہیں۔ جیسے کہ مصطفیٰ ثرایا اور حمزہ الدحدہ، جو ناقابل تصور مشکل حالات میں اپنا کام کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ٹارگٹ حملوں یا اندھا دھند بمباری میں مارے گئے۔اسرائیل نے اس نسل کشی میں 1,000 سے زیادہ ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو بھی ہلاک کیا۔ کچھ کو بموں سے، کچھ کو ٹینک میں آگ لگا کر اور کچھ کو بیماروں اور زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنے کے جرم میں۔ اسرائیلی حراستی مراکز اور جیلوں میں ڈاکٹر زیاد الدالو کی طرح بہت سے لوگ بھی مارے گئے۔ایک اندازے کے بعد غزہ کی باز آباد کاری پر 50 بلین ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔ توقع ہے کہ عرب دنیا جس کے پاس تیل کی دولت کا انبار ہے وہ گناہوں کا کفارہ غزہ کی مدد کر کے ادا کریں گے۔ ممکن ہے کہ آئندہ چند سالوں میں غزہ کی زندگی معمول کی طرف لوٹ جائے مگر افسوس کہ ہزاروں ذہین نوجوان، ڈاکٹرس، ماہرین تعلیم، صحافی، شعرا، مصنفین، دانش ور جنہیں اس نسل کشی نے نگل لیا ہے وہ لوٹ کر آ نہیں سکتے ہیں۔
غزہ کی ذمہ داری کون سنبھالے گا؟
گزشتہ کئی دہائیوں سے غزہ کے انتظامی امور کو حماس سنبھال رہی ہے۔حماس نے انتخابات جیت کر اقتدار حاصل کیا تھا مگر جمہوریت کے چمپینوں نے حماس کی جمہوری کامیابی کو تسلیم نہیں کیا۔اس کے باوجود محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی غزہ کا انتظام نہیں سنبھال سکی۔ گزشتہ 15مہینوں میں اسرائیل کے جنگی اہداف میں پہلا ہدف حماس کا مکمل خاتمہ تھا۔مگر یہ نسل کشی بھی حماس کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکی ہے۔آج اتوار کو جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈون ساغر نے تسلیم کیا کہ اسرائیل میں یہ احساس شدت پکڑ رہا ہے کہ جنگ کا خاتمہ اہداف کے حصول کے بغیر ہونے جا رہا ہے، جو حکومت کی سیاسی ساکھ اور قائدانہ صلاحیتوں بشمول فیصلہ سازی پر بڑا سوال بن جائے گا۔اس لیے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دونوں نے جنگ بندی کے پہلے ہی روز جنگ بندی سے ہٹ کر اگلے عزائم کی نشان دہی کرنا شروع کر دی ہے۔وزیر خارجہ اسرائیل نے کہا کہ اگر حماس غزہ میں برسر اقتدار رہتی ہے تو علاقائی سطح پر عدم استحکام مسلط رہے گا۔ اسرائیل غزہ میں اپنی طویل جنگ کے لیے طے شدہ تمام اہداف حاصل کرنے کا پابند ہے اور اس کے لیے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ انہی اہداف میں حماس کی غزہ میں حکومت اور اس کی جنگی صلاحیت کا خاتمہ ہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ ‘اسرائیل حماس سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ تاہم اسرائیل نے کافی پیش رفت کی ہے۔ حماس دہشت گرد فوج کے بجائے ایک گوریلا گروپ میں تبدیل ہوگیا ہے۔دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم نے بہت ہی جوش سے کہا ہے کہ وہ غزہ کے انتظامات کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی جو مغربی کنارہ کے علاقے کو کنٹرول کرتی ہے، کیا اس میں اسرائیل کے دوسرے کنارے پر واقعے غزہ پٹی کو سنبھالنے کی صلاحیت موجود ہے؟ امریکہ کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ غزہ کے عوا م کا حق ہے۔ ستم رسیدہ غزہ کے عوام سے اس کا حق نہیں چھینا جاسکتا ہے۔
حماس تو ختم نہیں ہوئی لیکن عرب ممالک کا وقار ختم ہوا ہے
گزشتہ 15 مہینوں میں صرف غزہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل نہیں ہوا ہے بلکہ عرب ممالک کا وقار اور دبدبہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ترکی کے صدر طیب اردگان جو مسلم دنیا کے ہیرو بننے اور خلافت عثمانیہ کے احیا کا عزم دہراتے تھے وہ اسرائیل کے سامنے کیوں ڈھیر ہوگئے؟ عرب ممالک میں بالخصوص سعودی عرب کا کردار خاص طور پر عرب اور اسلامی قیادت کے دعوؤں کی وجہ سے سوالوں کی زد میں ہے۔اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی پر سعودی عرب اور بیشتر عرب ممالک نے محتاط رد عمل دیا۔ سعودی عرب غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی بے مثال ہلاکتوں اور تباہی پر اسرائیل کی مذمت تک ہی محدود رہا لیکن دوسری طرف وہ اور اس کے ساتھ دیگر عرب ممالک غزہ کی مدد کرنے کا عہد بھی کرتے رہے۔سوال یہ ہے کہ عرب ممالک اس قدر متضاد موقف کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ دراصل تیونس سے شروع ہونے والے عرب بہار نے عرب کے حکم رانوں اور شاہی حکومتوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔عرب ممالک کے حکم رانوں نے اپنے اقتدار کی خاطر مسلم امہ کے تصور کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔جس طرح سعودی عرب نے شام میں اسد کے زوال کے بعد سیاسی استحکام کے لیے تگ ودو کی ہے اس طرح غزہ کے لاکھوں نوجوانوں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ الٹا سعودی عرب بے حسی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک کے درمیان کشیدگی، رقابتیں اور جغرافیائی سیاسی مسابقت، دولت اسلامیہ جیسے دہشت گرد گروہوں کا عروج اور عراق، شام اور یمن میں فرقہ وارانہ جنگ نے عرب ممالک کو اس لائق نہیں چھوڑا ہے کہ اسرائیل کا مقابلہ کر سکیں۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ اس جنگ بندی کے بعد عرب ممالک کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ کو جہنم بنادیں گے۔ایسے میں وہ اپنی سلامتی اور خود مختاری کی حفاظت کیسے کر پائیں گے؟
***
ایک اندازے کے بعد غزہ کی بازآبادکاری پر 50 بلین ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔ممکن ہے کہ عرب دنیا جن کے پاس تیل کی مصنوعات کی دولت کا انبار ہے اور وہ گناہوں کا کفارہ غزہ کی مدد کے ذریعہ ادا کریں۔ممکن ہے کہ آئندہ چند سالوں میں غزہ کی زندگی لوٹ جائے۔مگر یہ طے ہے کہ ہزاروں ذہین دماغ نوجوان، ڈاکٹرس، ماہرین تعلیم، صحافی، شعرا، مصنفین، دانشور جنہیں اس نسل کشی کے ذریعہ نگل لیا گیا ہے وہ لوٹ نہیں سکتے ۔اس لئے طے ہے کہ آنے والے دن غزہ میں اتنے ہی تکلیف دہ، اتنے ہی تباہ کن اور اتنے ہی نا انصافی پر مبنی ہوں گے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025