
اسرائیلی کابینہ :’’نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘‘
السویدا سے دمشق تک:غیر فوجی پٹی کا اعلان اور اسرائیلی بفر زون کی آڑ میں شام پر قبضے کی نئی سازش
دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو
دروزوں کے تحفظ اور امریکی ثالثی کی آڑ میں جنوبی شام کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کی اسرائیلی مہم
سات دسمبر 2024 کو شام میں حالیہ پیش رفت سے ایک روز قبل، اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ (Yoav Gallant) کی زیر صدارت عسکری مشیروں کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس کے بعد تل ابیب نے اپنے تحفظات واشنگٹن، مصر اور خلیجی ’دوستوں‘ تک پہنچا دیے۔ اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل کے لیے اب شام کی صورتحال "نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن” والی بن چکی ہے، کیونکہ شام میں ایرانی اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد کوئی نئی اسلامی قوت سر اٹھا سکتی ہے۔
بشارالاسد حکومت کے زوال کے فوری بعد اسرائیل نے شام پر شدید فضائی اور بحری حملے شروع کر دیے ہیں۔ اسرائیلی اعلامیے کے مطابق 48 گھنٹوں کے اندر 450 حملوں میں شامی فوج کے 80 فیصد اثاثے تباہ کر دیے گئے، جن میں درعا کا مرکزی اسلحہ ڈپو، المِزۃ ائیربیس، السویدا میں الخلخلہ فوجی اڈہ اور ترک سرحد کے قریب قامشیلی ایئرپورٹ شامل ہیں۔ شامی بحریہ کی تنصیبات بھی مٹی کا ڈھیر بنادی گئیں۔ اسرائیلی فوج نے جبل حرمون (جبل الشیخ) پر بھی قبضہ کرلیا جو شام و لبنان کی سرحد پر واقع ہے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے قبضے کو جائز قرار دینے کے لیے ایران نواز لبنانی گروہوں کی آمد روکنے کا بہانہ بنایا اور دمشق کے جنوب میں 25 کلومیٹر دور مورچے لگا لیے۔
مئی میں صدر ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی میزبانی میں ٹرمپ کی شام کے نئے صدر احمد الشرع سے ملاقات ہوئی۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق ترک صدر ایردوان بھی ویڈیو لنک پر شریک تھے۔ ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے احمد الشرع کو "nice guy” قرار دیا اور جلد ہی شام پر سےامریکی پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نئی شامی حکومت کے "مثبت” طرزِ عمل کی تعریف کی لیکن اسرائیلی جارحیت کم نہ ہوئی۔ اسرائیل دریائے لطانی تک لبنانی سرحد پر بفر زون قائم کرچکا ہے، اب وہ دروز اقلیت کے تحفظ کو جواز بناکر دمشق کے جنوب میں ایسا ہی غیر عسکری بفر زون بنانا چاہتا ہے۔
اپریل کے اختتام پر السویدہ میں دروزوں نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے جس پر اسرائیلیوں کے مطابق مسلح بدوؤں نے حملہ کیا، جس میں دونوں جانب شدید جانی نقصان ہوا۔ ردِ عمل میں اسرائیل نے یکم مئی کو دمشق کے صدارتی محل اور ملحقہ فوجی اڈے پر بمباری کی۔ اس کے بعد دروزوں کے روحانی پیشوا شیخ موقف طریف نے نیتن یاہو سے ملاقات کرکے شکریہ ادا کیا۔ شامی حکومت کی کوششوں سے امن بحال ہوا، لیکن جولائی میں تصادم پھر بھڑک اٹھا۔ شامی حکام کے مطابق یہ کشیدگی اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی سازش ہے۔
بارہ اور تیرہ مئی کو شدید جھڑپوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ امن قائم کرنے کے لیے شامی فوج نے علاقے میں مداخلت کی مگر اسرائیلی فضائیہ نے شامی ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور راکٹ لانچروں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا کہ یہ حملے سیاسی قیادت کی ہدایت پر کیے گئے تاکہ دروزوں کا تحفظ اور جنوبی شام کی غیر فوجی حیثیت برقرار رکھی جا سکے۔
اس کے بعد اسرائیل نے پورے شام میں فضائی حملے کیے جن میں شامی فوج کا GHQ اور صدارتی محل بھی شامل تھا۔ صدر ٹرمپ نے روایتی بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش کی اور دمشق نے السویدا سے فوجی انخلا کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد بدو قبائل پر ظلم کا آغاز ہوا۔ دواخانوں اور مردہ خانوں میں جگہ کم پڑ گئی۔ 80 ہزار بدو بے گھر ہوکر دمشق کی سمت دھکیل دیے گئے اور شام میں غربِ اردن جیسے مناظر دکھائی دینے لگے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ دمشق کے جنوب میں گولان کی پہاڑیوں سے جبل دروز تک کا علاقہ غیر فوجی ہوگا۔ ان کے مطابق:
• گولان ہائٹس: 1967 کی چھ روزہ جنگ میں شام سے چھین کر اسرائیل نے قبضہ کیا۔ ٹرمپ دور میں امریکہ نے اس الحاق کو تسلیم کرلیا۔ • UNDOF زون: 1974 میں اقوام متحدہ نے شام-اسرائیل سرحد پر United Nations Disengagement Observer Force کے تحت غیر فوجی زون قائم کیا۔ یہ 80 کلومیٹر طویل اور 0.5 سے 10 کلومیٹر چوڑا ہے۔
• جبل دروز (السویدا): جنوبی شام کا دروز اکثریتی علاقہ جسے جبل العرب بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل اسے محفوظ زون میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
اٹھارہ فروری کو انقرہ میں امریکی سفیر ٹام براک نے اعلان کیا کہ امریکہ کی کوششوں سے اسرائیل اور شام السویدا میں جنگ بندی پر متفق ہوچکے ہیں اور اسرائیل کو وہاں شامی فوج کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں۔ بظاہر السویدہ میں حالات پر سکون اور شامی فوج کے قابو میں نظر آرہےہیں لیکن غزہ نسل کشی، غربِ اردن و گولان پر غاصبانہ قبضے، لبنان میں اشتعال انگیزی اور اب شام میں مداخلت جیسے واقعات کے تناظر میں خطے کا امن ہمیشہ کی طرح اب بھی مخدوش لگ رہا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025