اسرائیلی فوج غزہ کو تقسیم کرنے والی نظارم راہداری سے پسپا

اسرائیل کے مختصر رقبے پر امریکی صدر کو تشویش ۔پیجر کی بربریت کا جشن، امریکی صدر کو طلائی پیجر کا تحفہ

0

مسعود ابدالی

اسرائیلی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے جلاوطنی منصوبے کی سخت مزاحمت کا اعلان
سابق اسرائیلی وزیر دفاع کی آمد پر شکاگو میں مظاہرہ ۔اہل غزہ کے مثالی صبر و ضبط کا اعتراف۔اپنوں نے بھی کیا غیروں نے بھی کیا
اسرائیلی و فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری ہے۔آٹھ فروری کو قیدیوں کے پانچویں تبادلے کے بعد آزادی پانے والے اسرائیلی قیدیوں کی تعداد 16 ہوچکی ہے اور اگر اس میں تھائی لینڈ کے پانچ باشندوں کو شامل کرلیا جائے تو تادم تحریر مزاحمت کار 21 قیدی رہا کرچکے ہیں جس کے جواب میں چھوٹے بچوں، کمسن بچیوں اور عورتوں سمیت 766 فلسطینی، اسرائیلی قید سے نجات پا گئے۔ عقوبت کدوں میں بند ان لوگوں کو رہائی سے پہلے غزہ کی تباہی پر مشتمل ڈھائی منٹ کا ایک بصری تراشہ دکھایا گیا۔ یہ خوفناک فلم ان قیدیوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ہے کہ 7 اکتوبر کو طوفان اقصٰی اٹھانے کی اہل غزہ کو کتنی بھاری قیمت اداکرنی پڑی ہے۔
اس ہفتے غزہ کو تقسیم کرنے والی نظارم راہداری (Netzarim Corridor) سے اسرائیلی فوج کا انخلا مکمل ہوگیا ہے۔ غزہ پر جزوی قبضے کے بعد اسرائیل نے سمندر تک ساڑھے چھ کلو میٹر لمبی اور ڈیڑھ کلو میٹر چوڑی پکی سڑک تعمیر کر کے پٹی کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ کہنے کو تو یہ سڑک ہے لیکن ساڑھے چھ کلو میٹر لمبی اس شاہراہ پر ٹینکوں کی قطار کھڑی کرکے اسرائیل نے اسے آہنی دیوار بنا دیا تھا۔ اہل غزہ کا اصرار تھا کہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات سے پہلے نظارم راہداری خالی کی جائے۔
اس ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم کا دورہ واشنگٹن اور امریکی صدر کا غزہ پر قبضہ جمانے کا ارادہ بلکہ خبط ذرائع ابلاغ پر چھایا رہا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو المعروف بی بی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سلطانی ٹرمپ کے دورِ ثانی میں امریکہ آنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ ہیں۔ تین فروری کو روانگی سے پہلے تل ابیب کے بن گوریان ائیرپورٹ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ مشرق وسطیٰ کو ازسرنو ترتیب دے سکتی ہے اور ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ڈونالڈ ٹرمپ نے غزہ پر امریکی قبضے کی خواہش ظاہر کرکے نئے نقشے کی رونمائی کر دی ہے۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘دنیا اگر میری میز ہے تو اس میں اسرائیل کا رقبہ میرے صدارتی قلم کی نب سے بھی کم ہے’
ٹرمپ اقتدار کے موجودہ دور کی خصوصیت ان کی توسیع پسندانہ خواہش کا برملا اصرار اور تکرار ہے۔ وہ کئی بار کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی آرزو بیان کرچکے ہیں۔ امریکی صدر ڈنمارک سے گرین لینڈ خریدنا اور وہ نہر پاناما پر امریکی پرچم لہرانے کا عزم رکھتے ہیں۔ حلف اٹھاتے ہی انہوں نے خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکہ رکھ دیا ہے۔ جبکہ غزہ پر قبضے کے بارے میں امریکی صدر بے حد سنجیدہ لگ رہے ہیں۔
بی بی سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ:
• غزہ کے لوگ جہنم میں جی رہے ہیں، یہ رہنے کی جگہ نہیں رہی۔ انہیں کسی اور جگہ جانے کی ضرورت ہے۔ غزہ کی سرنگوں اور دیگر جگہوں پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک انتشار ہے۔ غزہ میں کیا ہے موت اور تباہی کے سوا؟ ہم چاہتے ہیں کہ غزہ کے لوگوں کو مستقل طور پر اچھے گھروں میں آباد کیا جائے، جہاں انہیں غزہ کی طرح گولیوں یا قتل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
• مصر اور اردن نے مطلع کیا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن کچھ دوسرے ممالک نے ان کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔
• ہم امن چاہتے ہیں اور قتل و غارت روکنے کے خواہاں ہیں اور یہی نتن یاہو بھی چاہتے ہیں۔نتن یاہو نے (غزہ میں) اچھا کام کیا ہے، ہماری دوستی پرانی ہے۔آخر میں ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ‘میں نوبل امن انعام کا حق دار ہوں، لیکن شرم ناک بات کہ مجھے یہ انعام کبھی نہیں ملے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ غزہ پر قبضے کے لیے امریکی فوج بھیجیں گے؟ تو انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا کہ ‘ہم وہ کریں گے جو ضروری ہوگا۔ ہم اس ٹکڑے کو سنبھالنے جا رہے ہیں جسے ہم ترقی دے کر صحت افزا Riviera بنائیں گے۔ امریکہ غزہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی تعمیر نَو کرنا چاہتا ہے جس کے بعد سے ایک کھلا عالمی علاقہ بنا دیا جائے گا اور تعمیر نو کے بعد فلسطینی سمیت دنیا بھر کے لوگ وہاں رہ سکیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کی حمایت کریں گے؟ تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس سوال کا جواب تین چار ہفتوں کے بعد دیں گے۔ اگر اس معاملے کو اسرائیلی رقبے کے حوالے سے ان کے شکوے کے تناظر میں دیکھا جائے تو جواب کے لیے تین ہفتہ انتظار کی زحمت فضول لگ رہی ہے۔
اس دورے کا سب سے شرم ناک مرحلہ تحائف کا تبادلہ ہے۔ نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو ایک طلائی پیجر Pager بطور تحفہ پیش کیا۔ گزشتہ برس ستمبر میں اسرائیل نے بارود سے بھرے ہزاروں پیجر لبنان بھیجے تھے۔ ان پیجروں کے پھٹنے سے سیکڑوں مزاحمت کار اور عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ صدر ٹرمپ نے یہ تحفہ شکریے کے ساتھ وصول کرتے ہوئے اس بربریت کو “شاندار آپریشن“ قرار دیا۔جواب میں صدر ٹرمپ نے دورے کی ایک تصویر مہمان کو پیش کی جس پر انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ‘بی بی عظیم لیڈر’
غزہ پر قبضے کے عزم کی ساری دنیا نے ایک آواز ہو کر مخالفت کی ہے۔ امریکی ڈیموکریٹک کے سینئر رہنما سینیٹر رچرڈ بلیو منتھال نے اسے احمقانہ اور انتہائی خطرناک تجویز قرار دیا۔ واضح رہے کہ بلیو منتھال صاحب ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں۔ سینیٹر کرس وین ہولن نے سوال کیا کہ معاشرتی تطہیر کو امن منصوبہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ جبکہ سینیٹر کرس مرفی کے خیال میں غزہ پر امریکی حملہ قتل عام کا سبب بنے گا۔مقبوضہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ غیر قانونی، غیر اخلاقی، مکمل طور پر غیر ذمہ دارانہ اور بین الاقوامی جرم کے ارتکاب کی ایک مکروہ شکل ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتونی البانیز، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، چین اور روس کی وزارت خارجہ نے صاف صاف کہ دیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست ہی مسئلے کا منطقی حل ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی قابل قبول نہیں ہے۔ مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، قطر اور مقتدرہ فلسطین (PA) کے وزرائے خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب مارکو روبیو کے نام مشترکہ خط میں غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے خیال کو ہی شرم ناک قرار دیا ہے۔ ہسپانوی وزیر خارجہ ہوزے البارز نے کہا کہ غزہ، اہل غزہ کا ہے اور فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔ ان کی ملک بدری عالمی برادری کے لیے ناقابل قبول ہے۔اس بیان پر جناب البارز کے اسرائیلی ہم منصب نے برہم ہوکر کہا ‘اسپین کو بہت ہمدردی ہے تواہل غزہ کو اپنے ملک میں جگہ دیدے’
اور تو اور اسرائیلی عسکری انٹلیجنس کے سربراہ میجر جنرل سلام بائنڈر نے کہا کہ اس سے غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے سمیت تمام عرب علاقوں میں پُر تشدد سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی چینل 13 کے مطابق جنرل صاحب کی اس بات پر وزیر دفاع اسرائیل کاٹز سخت برہم ہیں اور انہوں نے فوج کے سربراہ سے جنرل بائنڈر کی گوشمالی کرنے کو کہا ہے۔
اس معاملے پر عالمی صف بندی بڑی واضح ہے۔ ہالینڈ کے متعصب رہنما گیرت وائلڈرز نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ”بالکل درست جناب ڈونالڈ ٹرمپ۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ اردن فلسطین ہے، فلسطینیوں کو اردن جانے دیں، غزہ کا مسئلہ حل ہو جائے گا’۔ ہنگری کے انتہا پسند وزیر اعظم وکٹر اوربن نے بھی غزہ سے فلسطیینیوں کے جبری انخلا کی حمایت کی ہے تاہم اوربن صاحب نے اس کے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے کے بجائے اپنے یورپی اتحادیوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ Trump Tornado یا ٹرمپ طوفان کا مقابلہ آسان نہیں۔
صدر ٹرمپ تو غزہ پر قبضے کی ‘خواہش’ سے دستبردار ہوتے نظر نہیں آتے لیکن ان کے مشیروں نے وضاحتوں کی شکل میں حفاظتی دیوار کھڑی کرنی شروع کر دی ہے۔ قصرِ ابیض کی ترجمان کیرولین لیوٹ (Karoline Leavitt) نے کہا کہ ‘امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ تعمیر نو کے دوران وہاں کے باشندوں کو عارضی طور پر غزہ سے باہر منتقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت یہ جگہ کسی بھی انسان کے رہنے کے قابل نہیں’۔ دوسرے دن وضاحتوں کے غبارے کو سوئی چبھوتے ہوئے صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کے اپنے چبوترے Truth پر لکھا کہ جنگ کے اختتام پر، اسرائیل غزہ کی پٹی امریکہ کے حوالے کر دے گا۔ امریکہ دنیا بھر کی عظیم ترقیاتی ٹیموں کے ساتھ آہستہ آہستہ اور احتیاط سے اس کی تعمیر کا آغاز کرے گا جو زمین پر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور سب سے شاندار رہائشی اور تفریحی مقام ہوگا۔ اس کام کے لیے امریکہ کے کسی فوجی کی ضرورت نہیں ہوگی اور اس سے خطے میں استحکام آئے گا۔ پھر اس کے ایک دن بعد فرمایا کہ غزہ کو عظیم تفریح گاہ اور پُر تعیش رہائشی علاقے میں تبدیل کرنے کی انہیں کوئی جلدی نہیں ہے۔
غزہ کے ساتھ غرب اردن کی حالت بھی بہت خراب ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے سابق مشیر نمرود نووک (Nimrod Novik) نے کہا کہ ہم جنین اور غرب اردن میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ مغربی کنارے کو غزہ بنانے کی ایک منظم مہم ہے۔
بہت ہی کم تعداد میں لیکن کچھ اسرائیلی بھی نسل کشی کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔ یہودی رکن پارلیمنٹ (کنیسہ) جناب اوفر کسیف نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ‘عربوں کی جلا وطنی ناقابل قبول ہے، ہم اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ چاہے اس کے لیے ہمیں ٹرکوں کے نیچے لیٹنا یا پلوں کو اڑانا پڑے۔ اس جرأت رندانہ پر کنیسہ کی مجلسِ قائمہ برائے اخلاقیات نے اوفر کی رکنیت معطل کر دی جس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اوفر کسیف نے ٹویٹر پر لکھا ‘یہ گھناؤنا فیصلہ میری زبان پر قفل نہیں لگا سکتا۔ میں غزہ میں جنگی جرائم، قحط اور قتل عام پر کبھی خاموش نہیں رہوں گا’
اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر انجام بد کی صدارتی دھمکیوں کے باوجود امریکہ میں بھی نسل کشی کے مجرموں کا تعاقب جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوف گیلنٹ کی شکاگو آمد پر لوگوں نے "جنگی جرائم کے مرتکب کو گرفتار کرو” کے نعرے لگائے۔ انصاف پسند یہودی بھی انشے ایمت معبد (Synagogue) کے سامنے مظاہرے میں شریک ہوئے۔
گفتگو کے اختتام پر اہل غزہ کے بلند اخلاقی پہلو کا ذکر، جس کا اعتراف عالمی امدادی اداروں نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق خوراک اور امدادی سامان لے کر روزانہ 600 ٹرک غزہ آرہے ہیں لیکن 19 جنوری سے آج تک ایک بھی ٹرک لوٹا نہیں گیا۔ یہ ٹرک اقوام متحدہ کے گوداموں میں مال اتارتے ہیں جہاں سے راشن کارڈ پر سامان تقسیم ہوتا ہے۔ نظام کے تباہ و برباد ہوجانے کے باوجود مزاحمت کاروں نے لوگوں کو راشن کارڈ بنا کر دیے ہیں جن پر درج تفصیل کے مطابق خاندانوں کو سامان دیا جاتا ہے۔ سترہ سو جوانوں پر مشتمل پولیس سرگرم ہے جن کے لیے گزشتہ دو ہفتوں میں اٹھارہ تھانے بنائے گئے ہیں۔ گویا فاقہ کش اہل غزہ صرف برستی آگ کے سامنے ہی ثابت قدم نہیں رہے بلکہ پیٹ کی آگ بھی انہیں آپے سے باہر نہیں کر رہی ہے۔ دوسری طرف لاس اینجلس میں آتشزدگی کے دوران لوٹ مار، چوری اور اب انشورنس کے جعلی دعووں کی کہانیاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025