اردو کو ختم کیا اردو قواعد نے ۔۔۔

اسکول کے معصوم ذہنوں کو قواعد و گرامر کے جال میں نہ الجھایا جائے

انور ذیشان ایم اے (علیگ)

’اردو کو ختم کیا اردو قواعد نے ۔۔۔‘جی ہاں ، میں نے یہی کہا :’’ اردو کو ختم کیا اردو قواعد نے‘‘ یقیناً آپ حیرت میں ہیں۔ ماتھے پر شکنیں پڑ رہی ہیں کہ بھلا یہ کون سی بات ہوئی؟ زبان کو، زبان کے قواعد نے ہی ختم کردیا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ قواعد کے بغیر تو کوئی زبان ہی نہیں ۔ قواعد کی تعلیم تو زبان کی جان ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ذرا ضبط رکھیں۔ چند منٹ فرصت کے لے کر تحریر کو اخیر تک پڑھیں۔ امید ہے کہ پیشانی کی شکنیں ختم ہوں گی اور سوالات کے جوابات بھی مل جائیں گے۔ آئیے حقیقت اور حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔
عقل تو یہی کہتی ہے کہ قواعد کی تعلیم اور اس کی درسی کتابوں کا مدعائے اصل یہ ہوتا ہے (اور یہی ہونا بھی چاہیے) کہ طلبا کے اندر اردو زبان کے تعلق سے تحریر و تقریر کی مہارت پیدا ہو۔ ان کی زبان میں روانی آئے اور میدان عمل میں کسی بھی موقع پر ، اپنے خیالات کو تحریری یا تقریری شکل میں، رفتار و روانی کے ساتھ پیش کرسکیں۔ غلطیاں ہی نہ ہوں اور بات بھی مضبوطی کے ساتھ مکمل ہوجائے۔ یہی تو ہے شاید قواعد کی تسلیم کا اصل مقصد؟؟!
لیکن کیا وجہ ہے کہ اسی ساری ’’اردو قواعد‘‘ کی کتابوں کے باوجود اردو زبان کی حالت دن بدن نازک ترین ہوتی جارہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ قوم کے بچوں میں اردو سے لا تعلقی و بے زاری پیدا ہوگئی ہے؟ کیوں تمام مضامین میں سب سے زیادہ کمزور و شکستہ خود ان کی مادری زبان ہے؟ کیوں ہونہار مسلم طلبا اردو کی چند سطریں لکھ اوربول نہیں پاتے؟ کیوں انہیں اردو زبان مشکل لگنے لگی ہے اور کیوں اپنی ہی زبان سے ان کے اندر انتہائی عدم دلچسپی اور اکتاہٹ پیدا ہوتی چلی گئی ہے؟؟ یقیناً اسّی فیصد سے زائد مسلم طلبا و طالبات کی حقیقی و زمینی صورتحال یہی ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ جب زبان ہی مٹتی چلی جارہی ہے تو کہاں باقی بچے گی اپنی تہذیب وروایت، ادب، شائستگی اور سلیقہ مندی؟
تو پھر سوال یہ ہے کہ وجوہات کیا ہیں ان حالات کے؟ اور کیا ہیں جوابات ان سوالوں کے ، ان ماہرین اردو اور ان مصنفین کے پاس۔ جو اردو کی درسی کتابوں کی ترتیب و تزئین کے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں؟ اور جنہوں نے اردو قواعد کی متعدد کتابیں تصنیف کر رکھی ہیں؟ اور ان تمام درد مندوں کے پاس، جو اردو کی انتہائی محبت میں کبھی پر زور قصیدے اور کبھی درد آفریں مرثیے سنایا کرتے ہیں؟ یقیناً جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور لازم پیکر جوابات کے لیے ذمہ دار سامنے آئیں!
فی الوقت جواب کے لیے ایک ناچیز قلم نے سر اٹھایا ہے۔ مدت سے حیران تھا۔ اب شاید اسے کچھ سکون مل جائے کہ خاموشی توڑچکا ہے، اور اپنی ادنی سی ذمہ داری پوری کررہا ہے۔ اور شاید کہ اس تنہا قلم کی چند متحرک لکیریں، مزید کچھ قلموں کے اندر فکر و جنبش پیدا کردیں۔!!
قبل اس کے کہ بات آگے چلے، اس اکیلے قلم کا ایک ہلکا سا تعارف ہوجانا بھی لازمی سا لگتا ہے۔ یہ قلم ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر ہے۔ ایک عرصہ سے اسکولوں میں نویں اور دسویں درجہ تک کی اردو اور انگلش لٹریچر پڑھانے کی خدمت انجام دیتا آرہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ شدہ ۔ نفسیات (physiology) کا طالب علم رہا۔ اردو اور سائنس وغیرہ اس کے ذاتی مطالعہ کے مضامین ہیں۔ بحیثیت ٹیچر، تدریسی سفر کے دوران جو مشاہدات سامنے آئے ہیں۔ ان ہی کی روشنی میں آج یہ قلم اپنی باتیں رکھ رہا ہے۔ فطرتاً یہ ایک رائٹر بھی ہے ایک آزاد اور بے خوف رائٹر۔ لہٰذا شروعات ہی اس نے بہت تلخ اور تعجب خیز جملے سے کیا ہے’’اردو کو ختم کیا، اردو قواعد نے‘‘
جائزہ لیں تو وجوہات اور حالات (causal factors ) کی فہرست بہت لمبی ہے۔ فی الحال یہ اکیلا قلم، اپنے ہی ذاتی مشاہدات کے دائرے میں چند بنیادی اسباب کا احاطہ کرے گا۔ وجوہات کی اس طویل فہرست سے فی الوقت دو کو دیکھیے:
۱ اردو قواعد کی موجودہ درسی کتابیں
۲ اردو زبان وادب کی موجودہ درسی کتابیں
’’اردو قواعد‘‘ کی کتابوں کا مقصد حاصل کیا ہونا چاہیے، نیز عصر حاضر کے مسلم طلباو طالبات کی اردو کے تعلق سے ’’زمینی صورتحال‘‘ کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اوپر گزرچکی ہیں۔ ’’وجوہات‘‘ کے ضمن میں پہلی بنیادی وجہ ’’اردو قواعد کی درسی کتابوں‘‘ کا جائزہ لیں تو تصویر کچھ ایسی ملتی ہےکہ اردو قواعد کی موجودہ کتابیں کچھ ایسے غیر ضروری اسباق اور تفصیلات سے بھری ہوئی ہیں جن کا ’’حقیقی صلاحیت‘‘ اور ’’عملی استعمال‘‘ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ زیادہ تر موضوعات یکسر غیر معیاری، فہم سے بالا تر اور محض رٹنے رٹانے والی بے جا تفصیلات سے بھرے پڑے ہیں۔
کتابوں میں درج اسباق اور عنوانات محض بے بنیاد اورغیر ضروری ہیں، از حد لا حاصل وغیر دلچسپ اور خلط ملط شکلوں کا مجموعہ ہیں بلکہ نہایت خشک اور بنجر زمین کی طرح نظر آتے ہیں۔
کئی چیزیں اور ان کی شکلیں اقسام در اقسام اور شاخ در شاخ پھیلتی چلی گئی ہیں۔ چیزیں، نہایت پیچیدہ جالوں کا مجموعہ بن جاتی ہیں۔ پڑھنے والوں کو مغالطہ و الجھن کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوتا۔ نیزمضامین کو سمجھانے کے لیے جن الفاظ و جملوں کا اور جس انداز بیان کا تعین کیا گیا ہے۔ وہ بھی خاصے غیر معیاری اور غیر متوازن ہیں۔ طلبا کی صلاحیت اور معیار سے بالاتر ہیں۔ کچھ مقامات پر استاد کی سمجھ اور کوشش بھی دم توڑ دیتی ہے۔ بطور نمونہ اس وقت اسکول و مدارس میں چلنے والی، اردو قواعد کی تین عدد کتابیں ہیں (بیان مقصد ایک عمومی صورتحال دکھانا ہے۔ کسی مخصوص کتاب پر نشانہ بازی نہیں۔ نمونہ کہیں سے بھی لیا جاسکتا ہے)
1۔ جدید اردو قواعد۔ حصہ اول۔ برائے درجہ سوم و چہارم
تالیف: اکرام علی راشد (گڈ ول پبلکیکشن۔ پٹنہ، بہار)
2۔جدید اردو قواعد، حصہ ۳ ۔ برائے درجہ ششم
تصنیف: سید محمد نصر الحق (گڈ ول پبلیکیشن، پٹنہ، بہار)
3۔ جدید اردو قواعد، حصہ چہارم۔ برائے درجہ ساتویں و آٹھویں۔
تالیف۔ ابوالکلام قاسمی (گڈ ول پبلیکیشن، پٹنہ، بہار)
حوالوں اور صفحات کے نشاندہی کے ساتھ مذکورہ کتابوں کے چند اسباق کی تصویریں پیش کی جارہی ہیں۔ طوالت سے بچنے کی خاطر میں نے صرف اشاریے اور نمونے ہی پیش کیے ہیں ۔ تفصیلی جھلک تو کتاب میں ہی ملے گی۔ کیا بہتر ہوگا اگر یہ کتابیں اس وقت آپ کے سامنے بھی ہوتیں۔
جدید اردو قواعد، حصہ اول (اکرام علی راشد) کتاب درجہ سوم و چہارم کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ دیکھیے ’’اسم اعظم (یعنی Noun) کی کیا کیا تفصیلات ہیں:
صفحہ نمبر 16سے لے کر 24تک صرف اسم کی ہی مجموعی طور پر اڑتیس (38) اقسام اور درجہ بندیاں کی گئی ہیں۔
1۔ اسم کی قسمیں (معنی کے اعتبار سے) اسم نکرہ، اسم معرفہ (صفحہ 16-17)
پھر اسم نکرہ کی سات قسمیں: اسم ذات،اسم استفہام، اسم صفت، اسم مصدر، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم حالیہ
پھر اسم معرفہ کی سات قسمیں۔ علم ، ضمیر، اشارہ، اسم موصول، اسم معبود، منادیٰ مضاف
۲۔ اسم کی قسمیں ۔ (گنتی کے اعتبار سے) واحد۔ جمع۔ پھر تفصیلات (صفحہ 18)
3اسم کی قسمیں (بناوٹ کے اعتبار سے) جامد، مصدر، مشتق (صفحہ.21)
پھر مصدر کی چھ قسمیں: لازم۔ متعدی، مفرد، مرکب، مصدر اصلی ، مصدر جعلی
پھر مشق کی چھ قسمیں۔ اسم فاعل۔ اسم مفعول۔ حاصل مصدر۔ اسم حالیہ۔ اسم آلہ۔ اسم ظرف
غور طلب ۔ اسم فاعل، اسم مفعول، اسم مصدر وغیرہ قسمیں اوپر ’’اسم نکرہ‘‘ کے ذیل میں گزر چکی ہیں۔ یہاں دوبارہ مشق کے اقسام میں آرہی ہیں۔
’’استفہام ، مصدر ، علم، ضمیر معبود، مضاف اور منادی‘‘۔ جیسے الفاظ کیا سمجھ میں آئیں گے تیسری و چوتھی جماعت کے طلبا کو؟ اور کہاں تک زبان زد ہوں گے؟
نیز ان سب کی ایک دوسرے کے ساتھ الجھتی ہوئی خلط ملط تعریفیں و تفصیلات کس نتیجے تک پہنچائیں گی طلبا کو؟ اور کس حد تک ان کی عملی صلاحیت و استعمال سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ چیزیں؟ مزید یکھیے۔
4۔اسم کی قسمیں۔ (جنس کے اعتبار سے) مذکر، مونث، مذکر حقیقی، مذکر غیر حقیقی، مونث حقیقی و غیر حقیقی۔ تذکیرو تانیث وغیر ہ وغیرہ
نہ جانے سمجھا رہے ہیں یا خود الجھ رہے ہیں۔ کیا صرف ’’درجہ بندی‘‘ کی ہی قلا بازیاں کھلاتے رہیں گے یا کچھ عملی شکل اور حقیقی صلاحیت کے پہلو سے بھی سوچیں گے؟
مزید دیکھیے۔ ’’اسم کی تین حالتیں (صفحہ 28) ۔ فاعلی، مفعولی، اضافی اور پھر ان کی تشریحات۔ مزید آگے (صفہ 30 پر) ’’فعل کے اقسام‘‘ فعل لازم، فعل متعدی یہ سبھی نام و اقسام۔ پچھلے عنوانات کے ذیل میں گزر چکے ہیں۔ پھر یہاں نئے سرے سے اک نئی وضاحت کیا معنی؟ اس طرح ’’لازم اور متعدی‘‘۔ پچھلے اسباق میں ’’اسم و مصدر‘‘ کے ذیل میں گزرے ہیں۔ اب یہاں ’’فعل کے اقسام‘‘ کے تحت بتائے جارہے ہیں۔
مزید دیکھیں (Page:31-34) فعل معروف، فعل مجہول، فعل مثبت، فعل نہی اور پھر ان سب کی الگ الگ تشریحات اور فرق ۔ حیرانی ہوتی ہے کہ یہ سب ہے کیا۔ کہاں تک قبول کرے گا طلبا کا ذہن ان سب مغالطے، الجھی ہوئی جھاڑوں اور خلط ملط اقسام و درجہ بندیوں کو۔ اور کیا کچھ صلاحیت بنے گی ان بے ربط چیزوں کے رٹنے رٹانے سے ؟
(یہ صرف ایک کتاب کا نمونہ تھا بقیہ دو کتابوں میں بھی مزید کئی پُر پیچ اصطلاحات اور اقسام در اقسام بیان کیے گئے ہیں جنہیں بخوف طوالت ذکر نہیں کیا جارہا ہے)
میں نہیں سمجھتا کہ کسی بڑے پروفیسر، ادیب و شاعر اور قلم کار کو ہی ان تمام شاخ در شاخ الجھی ہوئی ، حیران کن مغز ماریوں سے گزرنا پڑتا تھا، اپنے مقام تک پہنچنے کے لیے ان سب کے بغیر ہی ہمارے بڑوں نے اچھی صلاحیت پالیا۔ میں بھی ایک ادنیٰ سا قلمکار ہوں۔ مجھے تو کہیں اور کبھی بھی۔ ’’اردو قواعد‘‘ کی ان مجموعی مخلوقات کو جاننے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کچھ صلاحیت نہیں میرے اندر ان عقل فریب چالوں کو سمجھنے و سمجھانے کی۔ پھر بھی لکھنے و بولنے میں کہیں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔
آج کل قواعد کی تعلیم کا مطلب یہ ہوچکا ہے کہ بس زبردستی کی بانسری بجاتے جایے۔ کوئی سنے اور سمجھے یا نہ سنے اور نہ سمجھے!!
کبھی کبھی تو عقل حیران ہوجاتی ہے کہ کیا کہیے۔ یہ ’’اردو قواعد‘‘ہیں یا کسی طلسماتی دنیا کا کوئی ’’سحر انگیز پٹارہ‘‘؟ یا کسی جنگلی خود رو جھاڑ کی پیچیدہ جڑیں اور شاخیں؟یہ صرف چند نمونے تھے جبکہ اردو قواعد کی تقریباً تمام کتابیں ایسے ہی فرسودہ و لاحاصل باتوں سے بھری پڑی ملیں گی۔ حقیقی استعمال اور عملی صلاحیت سے قطعی لاتعلق،بھلا بتلائیں کہ عنوانات در عنوانات الجھی ہوئی ، یہ بے ہنگم جھاڑیاں کون سی صلاحیت پیدا کریں گی؟
مزید یہ کہ ہائی اسکول کے طلباء کے لیے انداز بیان، جملوں اور الفاظ کا انتخاب بھی ایسا ، گویا ’’اردو آنرس‘‘ اور ’ایم اے‘ کے طلبا سے بات کی جارہی ہو۔ تو پھر کیوں نہیں طلبا کی رغبت اور دلچسپی منتشر ہوگی زبان کی طرف سے؟؟ یہی وہ باتیں ہیں جنہوں نے طلبا کے اندر بیزاری و لا تعلقی پیدا کی ہے اور ان کی صلاحیتوں کو ختم کر ڈالا ہے ۔ انداز بیان اور بیان شدہ مضامین دونوں ہی غیر معیاری و غیر متوازن اور قطعی افسردہ کن ہیں۔ تو پھر کیا غلط اگر یہ کہا جائے کہ اردو کو ختم کیا اردو قواعد نے ‘‘؟
اب اگر یہ دعویٰ غلط اور حقیقت سے بعید ہے تو ذرا آپ ہی طے کریں کہ پھر ’’وجوہات‘‘ کیا ہیں اور آپ یہ بھی واضح کریں کہ کس قدر قابل عمل اور قابل تدریس سمجھا جائے ان الجھی ہوئی تفصیلات کو؟ کیا واقعی صلاحیتوں کی تعمیر سے کچھ خاص تعلق بنتا ہے ان عقل فریب موضوعات کا؟ یہ فیصلہ آپ کریں۔ تمام ذمہ داران اور ’’ہمدردان اردو‘‘ مل کر کریں اور ازراہ کرم جلد از جلد جواب تلاش کریں۔ بہت تاخیر ہوچکی ہے۔
جہاں تک اردو کی حقیقی صلاحیت کا سوال ہے تو ’’بنیادی فارمولے‘‘ کی بس چند ہی چیزیں ہیں، جنہیں زبان اور صلاحیت کا لازمی جز کہا جانا چاہیے اور طلبا سے اتنی ہی مشق کرالیا جانا بہت کافی ہے۔ وہ ہیں:
(الف) ۱۔ زیادہ سے زیادہ الفاظ اور ان کے معنی کی پہچان
۲۔ الفاظ اور ان کے تذکیر و تانیث ۔ جملوں میں ان کا استعمال
۳۔ الفاظ اور ان کی متفرق جمع شکلیں۔ جملوں میں ان کی مشق
۴۔ الفاظ اور ان کے اضداد، زبانی و تحریری جملوں میں استعمال
۵۔ الفاظ اور ہم معنی الفاظ / (مترادف الفاظ) جملوں میں استعمال
۶۔ حال، ماضی اور مستقبل کی حالتوں میں۔ جملوں و الفاظ کی مستقل مشق
۷۔ آسمان اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں، مضامین و نظمیں پڑھنا، سمجھنا اور سمجھانا
۸۔ دیے گئے ، آسان عنوانات پر۔ خود سے لکھنے و بولنے کی مشق کرایا جانا وغیرہ
بس اتنی ہی محنت و مشقت کی ضرورت ہے۔ اور یہ مشق بھی رٹنے یا رٹانے والے فارمولوں سے قطعی در گزر کرتے ہوئے۔ سیدھے طور پر عملی شکل میں، زبانی و تحریری دونوں ذریعہ سے دی جائے۔ روز مرہ کے جملوں و الفاظ میں دی جائے۔ دنیا کا ہر بچہ اپنی مادری زبان کو اولاً گھریلو اور سیدھی بات چیت و بولی (Direct Comunication) کے ذریعہ ہی سیکھتا ہے۔ اس کے لیے قواعد کے فارمولے کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے لیے قواعد کے تمام اصول و قوانین ڈبہ کے اندر پڑے رہ جاتے ہیں، اور بچہ ان کے بغیر ہی بولنا سیکھ لیتا ہے۔ آگے چل کر اسے صرف پختگی کے لیے لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی مزید کچھ مشق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چیزیں وہی ہوتی ہیں۔ Theoriesکے بجائے سیدھے طور پر عمل میں آجاتی ہیں۔
اخیر میں اس ناچیز قلم کی یہ رائے ہے کہ ’’اردو قواعد‘‘ کی کتابوں کی خوب اچھی طرح صفائی کی جائے۔ ازسرنو زمین کو ہموار کیجیے۔ اچھی طرح سے کھرپی و کدال چلائیے اور جو کام کے پھول و پودے ہیں، بس انہیں ہی رکھیے۔ جوش و جنون میں اگ آئے تمام خود رو پودوں، گھاس پھوس اور جھاڑیوں کو چن چن کر ہٹایے اور دور پھینکیے۔
یہ باتیں اردو قواعد کی کتابوں کے تعلق سےتھیں ۔ ایک دوسری وجہ جس کا میں نے تذکرہ کیا تھا وہ ’اردو زبان و ادب کی موجودہ درسی کتابیں‘ ہیں تو اس سلسلے میں پھر کسی تفصیلی نشست میں کچھ بات ممکن ہوسکے گی۔ سردست ایک ہلکی سی روشنی ڈال لیتے ہیں :
موجودہ درسی کتابوں نے بھی بچوں کے اندر زبان سے از حد بے زاری، گھٹن اور لا تعلقی پیدا کی ہے۔ اردو پڑھنے کی خواہش اور حوصلے کو بے حد توڑا ہے۔بہت حیرت ہوتی ہے مجھے ان کتابوں کے اعلیٰ ذوق مرتبین کی عقل و فہم اور اعلیٰ نظری پر۔ چوتھی و پانچویں درجہ کی کتابوں میں کئی ایک مضامین اور نظمیں ایسی ملیں گی، جو نویں اور دسویں کی سطح پر ہونی چاہئیں۔ اور نویں و دسویں میں متفرق چیزیں ایسی ملیں گی جو بی اے اور ایم اے کی سطح پر ہوتی ہیں۔
بنیادی فارمولے کی مشق تو کبھی بچوں سے کرائی ہی نہیں گئی۔ اور اب سیدھے طور پر معیار سے کئی سطح اونچی باتیں ان کی کتابوں میں ڈال دی جاتی ہیں تو وہ کہاں سے سمجھیں گے اس کو اور لازماً ان کے اندر بیزاری اور لا تعلقی پیدا ہو جائے گی!
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بعض ماہرین تعلیم اور اعلیٰ ذوق مرتبین و مصنفین نہایت میٹھے انداز میں زبان کا گلا گھونٹ رہےہیں ۔ فی الحال اس دوسرے موضوع کو مؤخر کرتا ہوں، کسی دوسری نشست کے لیے۔ سردست جو کچھ حالات لکھے گئے ہیں، ان ہی پر توجہ اور اقدامات کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024