
اداریہ
روس، امریکہ اور بھارت: سستے میں خریدے گئے تیل کا فائدہ کارپوریٹ طبقے کو نہیں عوام کو ملنا چاہیے
بھارت اس وقت ایک ایسے معاشی اور سفارتی بحران کا سامنا کر رہا ہے جہاں اسے ایک طرف روس سے سستا تیل خریدنے کا فائدہ مل رہا ہے تو دوسری طرف اسے امریکہ اور یورپ کا بڑھتا ہوا دباؤ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت ہند کا مؤقف ہے کہ روس سے رعایتی تیل خریدنا عوام کے مفاد میں ہے تاکہ ایندھن کی قیمتیں قابو میں رہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پالیسی سے سب سے زیادہ فائدہ بڑے کارپوریٹ اداروں کو پہنچ رہا ہے، خاص طور پر وہ کمپنیاں جو سستا روسی تیل ریفائن کر کے بیرون ملک مہنگے داموں بیچتی ہیں۔
بھارت اور روس کے درمیان یہ تعلق کوئی نیا نہیں ہے۔ 1971ء میں بھارت اور روس (اُس وقت کے سوویت یونین) کے درمیان ہونے والے معاہدے سے دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط ہوئے تھے۔ اس وقت بھی بھارت نے مغربی دباؤ کو نظر انداز کر کے اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کیے تھے اور آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ روس کے ساتھ پرانی دوستی کو برقرار رکھا جائے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں۔
امریکہ نے حال ہی میں بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد تک ٹیرف لگا دیا ہے جس سے برآمدات اور روزگار پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم مودی اور صدر پوتن نے روس سے تیل کی درآمدات اور تعلقات کو مزید بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب واشنگٹن بھارت کو خبردار کر رہا ہے کہ وہ روس سے تیل کی خریداری میں کمی کرے۔
ظاہر ہے کہ تیل کی قیمتوں کا براہ راست تعلق عوام کی جیب سے ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ رعایتی روسی تیل سے قیمتیں قابو میں رہیں گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کو اس کا پورا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ اپریل 2025 میں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے رعایت سے حاصل ہونے والا بڑا حصہ حکومتی خزانے اور کمپنیوں کے منافع میں چلا گیا۔ مہنگائی کا بوجھ عام آدمی پر بدستور باقی ہے۔ ٹرانسپورٹ، اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروریات کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ رعایتی تیل کا سب سے بڑا فائدہ نجی ریفائنریوں کو ہو رہا ہے۔ بڑی کمپنیاں روسی تیل خرید کر بیرون ملک بیچتی ہیں اور بھاری منافع کماتی ہیں، جبکہ اندرون ملک عام صارفین کو برائے نام فائدہ ملتا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے نایارا انرجی پر دباؤ اور پابندیوں کی بحث نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ معاملہ صرف معیشت کا نہیں بلکہ سیاست اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا بھی ہے۔
حکومت نے امریکہ کے دباؤ کے جواب میں سخت بیانات تو دیے ہیں لیکن اپنے شہریوں کو راحت دینے کی کوئی واضح اور فوری حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ نہ ایندھن کی قیمتوں میں بڑی کمی ہوئی ہے اور نہ ہی کم آمدنی والے طبقوں کے لیے کوئی قابل ذکر سہولت دی گئی ہے۔ اس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ حکومت زیادہ تر بڑے صنعتی حلقوں کو خوش رکھنے میں ہی دلچسپی رکھتی ہے۔
اس صورتحال میں بھارت کو ایک متوازن پالیسی اپنانی ہوگی تاکہ روس کے ساتھ تعلقات بھی برقرار رہیں اور امریکہ کے ساتھ تجارتی رشتے بھی نہ ٹوٹیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ رعایتی تیل کا فائدہ براہ راست عوام تک پہنچے، ایکسائز ڈیوٹی میں کمی جائے اور قیمتوں میں کمی کا فائدہ جلد صارفین کو ملے۔ اسی کے ساتھ توانائی کے دوسرے ذرائع میں بھی سرمایہ کاری بڑھائی جائے تاکہ بھارت کسی ایک تیل سپلائی کرنے والے ملک پر انحصار نہ کرے۔ فیصلہ سازی میں عوامی مفاد کو سب سے اوپر رکھنا ہوگا، کیوں کہ اگر حکومت نے صرف کارپوریٹ طبقوں کے مفادات کو ہی ترجیح دی تو مہنگائی میں اضافہ ہو گا، بے روزگاری بڑھے گی نتیجے میں معیشت کمزور ہو گی۔ یاد رہنا چاہیے کہ آج رعایت ہے تو کل پابندی بھی لگ سکتی ہے اور اس وقت سب سے زیادہ قیمت عوام کو ہی چکانی پڑے گی۔