’نیو دہلی لیڈرس ڈیکلیریشن ‘کے نام سے جی 20 (گروپ آف 20) چوٹی اجلاس میں جو اعلامیہ جاری ہوا اس کو بجا طور پر ہمارے ملک کی ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بعض پہلوؤں پر نکتہ چینی جھیلنے اور بعض دیگر زاویوں سے کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعد ہماری حکومت نے ٹھنڈی سانسیں لی ہیں تو اس بڑے انعقاد کا جائزہ بھی لینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یورپی یونین کے علاوہ دیگر انیس ممالک کا یہ گروپ بنیادی طور پر اپنے اقتصادی امور پر کام کرنے والا ایک محاذ ہے جس میں اس مرتبہ افریقی یونین کو گروپ 20 کے مستقل رکن کے طور پر شامل کیا گیا۔ اس طرح اب یہ کل 21 ملکوں کا گروپ بن گیا ہے۔ لیبیا کے معمر قزافی نے قریب پچپن افریقی ملکوں کو مغربی ممالک کی سیاسی اور اقتصادی چنگل سے آزاد کرنے کے لیے سرگرم بلکہ قائدانہ کردار کیا تھا۔ بھارت نے ان میں سے 42 ملکوں کو چین کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ (2.65 لاکھ کروڑ روپیوں کے) قرضے دیے ہیں۔ دنیا کے 80 کروڑ بھوکے لوگوں میں سب سے زیادہ افریقی خطے میں ہیں۔ کورونا اور یوکرین جنگ کے پس منظر میں ان کی معیشت ابتر ہوتی گئی۔ افریقہ میں تیس لاکھ بھارتی بستے ہیں ان حالات میں بھارت کے لیے چینی سرمایہ کاری کا مقابلہ کرنا مزید آسان ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی بھارت خود کو گلوبل ساؤتھ کے لیڈر کے طور پرپیش کرنے جا رہا ہے۔
حکومت اور حکمراں پارٹی کی ہر سرگرمی کو ایک ’ایوینٹ‘ کے طور پر منانے کا مزاج اس اجلاس کو بھی ایک ’شو‘ میں تبدیل کر گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس کے انعقاد کے لیے ہماری حکومت نے قریب 4100 کروڑکی خطیر رقم خرچ کر ڈالی۔جبکہ پچھلے سال انڈونیشیاء میں اپنی صدارت کے دوران 364 کروڑ روپئے جی 20 کے انعقاد پر خرچ کئے تھے۔ تمام بیرونی مہمانوں کا گانے بجانے سے استقبال (جس میں ملکی ثقافت کی جھلک ہونے کی بات کہی گئی جب کہ سنجیدہ حلقوں نے ان رقص کو غیر سنجیدہ قرار دیاہے)، دلی شہر کی یک گونہ ناکہ بندی (شہریوں کو سڑکوں پر نکلنے کی پابندیاں نیز جھونپڑ یوں کو سبز رنگ کے کپڑے سے ڈھکنے سے اٹھے اعتراضات کو جھیلنا پڑا)، پورے شہر کو اور تاریخی عمارات کو رنگ و روغن اور روشنائی سے سجایا گیا، پر تکلف کھانوں اور چاندی کے برتنوں پر صرف کی گئی رقومات اور مہمانوں کو بیش قیمت تحائف (جن میں تلنگانہ کے کریم نگر کی چاندی سے بنی تاریخی مہین فِلِگری آرٹ کی دیدہ زیب اشیا ءپیش کرنا) بھی شامل ہے۔ ہر موقع اور اشتہاری مواد پر وزیر اعظم نریندر مودی کی نمایاں تصاویر کو پیش کرنے کی بات کا عالمی میڈیا نے بھی نوٹس لیا۔ سائبر سیکوریٹی کے ساتھ ڈیجیٹل اکانومی پر اتفاق رائے سے بھارت کو فائدہ ہوگا۔ ان باتوں کے ساتھ ہی ملک کے قریب 5 درجن شہروں میں 200 اجلاسوں کے انعقاد کو ایک نمایاں کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جس سے جی 20 کے وسیلے سے حکومت پورے ملک میں اپنی شبیہ چمکا سکی ہے۔ البتہ صدر جمہوریہ کی جانب سے عالمی قائدین کے اعزاز میں دیے گیے عشائیہ سے حزب احتلاف کے قائد نیز کانگریس پارٹی کے صدر کھرگے کو دعوت نامہ نہ بھیجنے سے اپوزیشن کے الزام کو تقویت ملی کہ بی جے پی قیادت والی این ڈی اے حکومت مسلسل جمہوری اقدار اور اصولوں کو پیروں تلے کچل رہی ہے۔
امریکی صدر جو بایڈن نے بھارتی وزیر اعظم مودی کو میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی پاس داری کی وصییت کرنے کا راز وِیت نام میں جا کر کھولا کیونکہ امریکہ کے اصرار کے باوجود دلی میں کوئی پریس کانفرنس کرنے کا موقع بیرونی صحافیوں کو دیا ہی نہیں گیا۔ اس پر مودی حکومت ہر جانب سے نکتہ چینی کی شکار ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے تحت سنہ 2050 تک کوئلہ، قدرتی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات سے ہونے والی آلودگی کو ’صفر‘ تک لے آنے کا نشانہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس موضوع پر تمام ملکوں کو راضی کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ دوسرا اہم مسئلہ یوکرین پر روسی جارحیت کے مذمت یا جنگ بندی کی اپیل کرنے میں بھارت اعلامیہ کی ناکامی ہے۔ خاص پہلو یہ رہا کہ روس کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اعلامیہ میں ایسے لچیلے الفاظ کا استعمال کیا گیا تاکہ متفقہ طور پر اعلامیہ منظور کر لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس پر یوکرین نے فورا ہی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ روس اور چین کے صدور نے بذات خود دلی اجلاس میں شرکت نہ کر کے امریکہ کی ناراضگی مول لی۔
سابقہ انڈونیشیا کے بعد امسال بھارت اور اگلے برس براژیل کو جی 20 کی صدارت حاصل ہوئی ہے۔ جو ملک صدر بنتا ہے اس سال کے لیے وہی ملک اس گروپ کا صدر دفتر بن جاتا ہے۔ جی 20 ممالک کی آبادی دنیا کی دو تہائی نفوس پر مشتمل ہے اور 60 فی صد زمین کا احاطہ کرتی ہے۔ یوں تو یہ 21 ملکوں اور محاذوں کا گروپ دفاعی اور سیاسی مقاصد سے پاک ہے اور موسمیاتی، سماجی اور بالخصوص اقتصادی اغراض کے لیے ہر سال مجتمع ہوتا ہے۔ انڈونیشیا، سعودیہ، ترکیہ رکن ملکوں کے علاوہ اس بار عرب امارات اورعمان جیسے مسلم ممالک کو بھی دلی کے اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔
ترکیہ نے اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل رکنیت کی کھل کر حمایت کی۔ دوسری جانب میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے صدر طیب اردوغان نے ’اسلاموفوبیا اور مذہبی شعائر کی دانستہ بے حرمتی‘ پر کھری کھوٹی سنائی۔ سعودی مہمان کا استقبال وزیر اعظم مودی صاحب نے ’’مَرحبا بِکُم‘‘ کہہ کر کیا۔ نیز مودی نے کہا کہ سعودی۔بھارت کے تعلقات میں مزید پختگی ہوگی۔ ترکی اور امارات کے ساتھ بھی بھارت اب گرم جوشی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے۔ بھارت، یورپ، امریکہ، عرب امارات اور سعودیہ کے درمیان اقتصادی کوروڈور کو تاریخی اقدام قرار دیا جا رہاہے جس کو چینی منصوبے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ کو ایک متبادل بلکہ چین کو ایک چیلینج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
حالانکہ روس میں اسلامک بینکنگ کی باضابطہ شروعات یکم ستمبر سے ہو چکی ہے۔ کیا ہی خوب ہوتا کے اس وقت عالمی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے جا رہے مسلم ممالک اپنی جانب سے بلا سودی مالیاتی نظام کو ایک انصاف پسند اور عالم انسانیت کی فلاح و ترقی کے متبادل کے طورپر پیش کر پاتے۔ یوں بھی افغانستان، ایران، ترکی اور دیگر ممالک عالمی بنک اور سودی سرمایہ داروں کے اداروں سے قرضوں سے بچ کر اپنی معیشتوں کو آگے لے جا رہے ہیں۔ روس، صدام کے زمانے کاعراق اور خود بھارت بھی موقع بہ موقع امریکی ڈالر کے طوق کو گردن سے نکال کر اپنی اپنی کرنسیوں میں بین ملکی تجارت کو انجام دینے کے مواقع تلاش کرتے رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی 24 فی صد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ حلال معیشت اور حلال سیاحت وغیرہ کے ساتھ خطیر سرمایہ کاری کرنے کی خواہش رکھنے والے مسلم ملک اب مغربی ملکوں سے باہر نکل کر بھارت جیسے ملک میں سرمایہ لگا رہے ہیں، جہاں انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں، اور جنھوں نے سینکڑوں برسوں تک حکمران بن کر قائدانہ کردار نبھایا اور اپنے خون پسینے سے اس ملک کی آبیاری کی ہے۔ اور جہاں مختلف گوشوں سے اسلامی بنکاری کے نفاذ کی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ مساویانہ اور منصفانہ ترقی سے ہٹ کر ملکی معیشت کی تیز رفتار ترقی کا کوئی بھی ماڈل سماج میں نابرابری اور پھر خانہ جنگی کی کیفیت کا سبب بن سکتا ہے جیسا کہ سری لنکا، پاکستان وغیرہ میں نظر آر ہا ہے اور جس کے اندیشے بھارت میں معدودے چند سرمایہ داروں کے ہاتھو ں میں ملکی دولت کے ارتکاز کے سبب سماج میں غم و غصہ ابلنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے تو انسانیت کی دنیوی اور اخروی فلاح کے آزمودہ نسخے کی طرف دعوت دینا سب کا فریضہ ہے۔
گذشتہ اسٹوری