اداریہ

صحافت جبر کے سائے میں

جمہوریت اور آزاد صحافت ایک دوسرے کے لیے نہ صرف لازم و ملزوم ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کی بقا اور استحکام کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔ جس جمہوریت میں صحافت اور صحافیوں کو اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی سے جبراً روک دیا جاتا ہو، انہیں بولنے کی آزادی نہ ہو اور حکومت حق کی آواز دبانے کے تمام حربے استعمال کرتی ہو وہاں صحافت جمہوریت کی پاسبان نہیں بلکہ محض درباری بھانڈوں اور چاپلوسوں کا اکھاڑہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اور جس ملک میں صحافت اور صحافی حق و صداقت، جرات و بے باکی اور امانت و دیانت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں، خوف و ہراس، دولت کی حرص کا شکار ہو جاتے ہیں وہاں جمہوریت کو مطلق العنانیت میں تبدیل ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت اور صحافت ان دونوں قسم کے حالات سے دو چار ہے۔
ایک طرف حکمراں جماعت اور اس کے ہمنواوں نے اس امر کی پوری کوشش کی کہ ملک میں صحافت کی آزادی کو ختم کر دیا جائے تاکہ کوئی ان ک اور ان کی مخالف عوام پالیسیوں کے خلاف آواز ہی نہ اٹھا سکے۔ مختلف قسم کی قانون سازیوں اور انتظامی کارروائیوں کے ذریعے آئین میں دی گئی آزادیوں پر قدغنیں لگائی جانے لگیں اور اظہار خیال کے حق کو تلف کرنے کی بھر پور کوششیں ہوتی رہیں۔ چنانچہ ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ملک آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی کے اشاریے میں نیچے گرتے گرتے 180 ممالک کی فہرست میں 161ویں مقام پر آ گیا۔ جب کہ 2016ء میں بھارت 133ویں مقام پر اور 2022ء میں 150ویں مقام پر تھا۔
گزشتہ دنوں ملک کی ایک غیر سرکاری تنظیم لوک نیتی اور سی ایس ڈی ایس نے ‘ہندوستان میں میڈیا: رجحانات اور طرزعمل’ کے موضوع پر ایک مبسوط رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں وہ نہ صرف چونکانے والے ہیں بلکہ آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں ہمارے گرتے ہوئے مقام کی بھی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ ملک کے مختلف مقامات پر کام کرنے والے 206 صحافیوں سے کیے گئے سروے پر مشتمل ہے۔ اس سروے میں 82 فیصد صحافیوں کا کہنا تھا وہ جس میڈیا ادارے سے وابستہ ہیں وہ بی جے پی کے حامی ہیں۔ 75 فیصد صحافیوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ میڈیا میں ایک ہی پارٹی کی حمایت کی جاتی ہے۔ سروے کیے گئے نصف سے زائد صحافیوں نے اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا کہ سیاسی جھکاو کے سبب وہ اپنی ملازمت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ 80 فیصد صحافیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میڈیا وزیر اعظم مودی کا کوریج بے انتہا حمایت کے ساتھ کرتا ہے جبکہ 61 فیصد صحافیوں نے یہ تسلیم کیا کہ اپوزیشن پارٹیوں کا بہت زیادہ منفی انداز میں کوریج کیا جاتا ہے۔ لوک نیتی سی ایس ڈی ایس نے صحافیوں سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ انہیں کتنی مرتبہ سوشل میڈیا پر اپنے کسی پوسٹ کے جواب میں گالی گلوچ، دھمکی اور ہراساں کیا گیا؟ 64 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں کم از کم ایک مرتبہ ایسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا۔چنانچہ 43 فیصد صحافیوں نے آزاد نیوز چینلوں کے مستقبل کے متعلق بہت زیادہ مایوسی کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برخلاف وہ اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا کے متعلق بہت زیادہ مایوس نہیں تھے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو اقتدار اور اس کے ہمنواوں کی جانب سے پیدا کردہ جبر کے ماحول کے سبب پیدا ہوئی ہے، جس کی وجہ سے یہاں صحافت کی آزادی بتدریج کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس صورت حال کا دوسرا پہلو بھی اتنا ہی تشویشناک ہے، وہ یہ کہ خود صحافت اور اس سے وابستہ صحافیوں کی اکثریت نے اپنی صحافتی دیانت داری اور بنیادی ذمہ داری کو دولت کے عوض اقتدار وقت کی مرضی کے تحت پوری طرح ترک کر دیا ہے۔ وہ وہی کچھ بولتے ہیں جو حکومت یا ان کے ہمنوا چاہتے ہیں، وہ وہی کچھ دکھاتے ہیں جو ان کے آقا ان سے کہتے ہیں۔ صحافتی اخلاق، جرات اور بے باکی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ملک کے مرکزی دھارے کا سارا میڈیا حکومت وقت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔
صحافت اور جمہوریت کی تنزلی کے یہ دونوں پہلو ملک میں جمہوریت کی بقا کے حوالے سے کافی تشویشناک ہیں۔ اہل ملک اور بالخصوص مسلمانوں کو ان پر سنجیدگی سے غور و فکر کرکے اس صورت حال کے تدارک کے لیے ٹھوس عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا اس حوالے سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ملک کے نوجوانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں کو اس معاملے میں پیش رفت کرنی چاہیے۔ وہ اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔ ملک میں صحافتی اخلاق، دیانت داری اور جرات و بے باکی کی ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ جدید ٹکنالوجی نے جو وسیلے اور مواقع ہمیں فراہم کیے ہیں ان کا وسیع پیمانے پر استعمال کرتے ہوئے ملک کے عوام کے سامنے سچائی کو پیش کرنے کا کام تسلسل کے ساتھ کریں۔ بڑے بڑے میڈیا ہاوزس کے بجائے چھوٹے چھوٹے پیمانوں پر سٹیزنس جرنلزم کے مختلف تجربات کے ذریعے آبادی کے بڑے حصے تک اپنی بات پہنچانے کی جد و جہد کرنا وقت کا تقاضا ہے۔