
اترپردیش میں دینی مدارس مسلسل نشانے پر!
مخالف مدارس کارروائیوں سے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ متاثر
سلیم شیخ
اسلامی مدارس کے تحفظ کے لیے کل ہند سطح کے فیڈریشن کی تشکیل ناگزیر
ممبئی: اترپردیش میں 2017 سے لے کر اب تک مذہبی تعلیمی اداروں، خصوصاً اسلامی مدارس کے سلسلے میں ریاستی حکومت کے رویے میں تدریجی تبدیلی دیکھی گئی ہے، جو نظرانداز کردینے سے بڑھ کر اب کھلی مخالفت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور عملی اقدامات میں جو تبدیلی آئی ہے اس نے ہزاروں طلبہ و اساتذہ کو غیر یقینی حالات کا شکار بنا دیا ہے۔
دیہی علاقوں میں جہاں سرکاری اسکولوں کو کم انرولمنٹ کی بنیاد پر خاموشی سے بند کیا جا رہا ہے (ایسے اسکول جن میں طلبہ کی تعداد 50 سے کم ہے) وہیں مدارس کو منہدم کرنے، بند کرانے یا غیر تسلیم شدہ قرار دینے کے لیے جارحانہ طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔
ریاست کے مشرقی اور وسطی اضلاع میں خاص طور پر مدارس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ درجنوں اضلاع میں اب تک سیکڑوں مدارس کو بلڈوزر کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومتِ اترپردیش کی ایک اسپیشل انویسٹیگیشن ٹیم (SIT) نے ریاست میں تقریباً 13,000 غیر تسلیم شدہ مدارس کی نشاندہی کی ہے، جن میں بڑی تعداد یو پی-نیپال سرحد سے متصل اضلاع جیسے مہراج گنج، شراؤستی اور بہرائچ میں واقع ہے۔
اس رپورٹ میں ان مدارس کو بند کرنے کی سفارش کی گئی ہے، حالانکہ ان میں سے بیشتر گزشتہ دو دہائیوں میں قائم کیے گئے تھے۔ کئی مدارس کو قانونی عمل اور عدالت سے رجوع کرنے کا موقع دیے بغیر منہدم کر دیا گیا ہے۔
2024 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ اس معاملے میں سب سے نمایاں مداخلت تھا جس کے تحت کئی مدارس کی سرکاری منظوری کو منسوخ کرنے کی اجازت دی گئی۔ تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر وقتی قانونی ریلیف ضرور فراہم کیا، لیکن تب تک کئی ادارے اپنی عمارتوں سے محروم ہو چکے تھے اور متعدد تعلیمی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی تھیں۔
2018 کے بعد سے ریاستی حکومت نے کسی بھی نئے مدرسے کو سرکاری منظوری نہیں دی، حالانکہ پسماندہ اور غریب طبقات کی جانب سے مدارس کی ضرورت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رجسٹریشن کا عمل مدارس کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو کوئی سرکاری معاونت ممکن ہے اور نہ ہی سرکاری ریکارڈ میں ان کی شمولیت۔ اس بندش نے مدارس کی ترقی کے دروازے تقریباً بند کر دیے ہیں اور ان طبقات کے لیے تعلیمی رسائی محدود ہو گئی ہے جو مدارس کو اپنے بچوں کی دینی و بنیادی تعلیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہزاروں موجودہ مدارس کو بھی سرکاری وظائف، اساتذہ کی مشاہرے، اور جدید کاری کے فنڈز سے محروم کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ریاستی امداد یافتہ تعلیم اور مدرسہ نظام کے درمیان خلا مزید بڑھ گیا ہے۔
مدارس کے رجسٹریشن کا عمل جان بوجھ کر پیچیدہ، غیر شفاف اور بعض اوقات مخالفانہ بنا دیا گیا ہے۔ تحقیقات کے دائرے میں آئے ہوئے 23,000 مدارس میں سے صرف 5,000 مدارس ہی عارضی قانونی دستاویزات رکھتے ہیں، جبکہ باقی ہزاروں ادارے غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
ریاستی حکومت کے ایک سروے کے مطابق اترپردیش میں 7,500 سے زائد غیر تسلیم شدہ مدارس موجود ہیں، جو اس حکومتی کارروائی کی منظم نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ کریک ڈاؤن صرف مدارس کی عمارتوں ہی کو نقصان پہنچانے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے خاص طور پر نیم شہری اور دیہی مسلم خاندانوں کے بچوں کا مستقبل بھی تاریک کر دیا ہے، جو نجی اسکولوں کی مہنگی تعلیم برداشت نہیں کر سکتے اور مدارس کو اپنی علمی پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ مگر اب ادارے بند کیے جا رہے ہیں اور ان کی سرپرستی ختم ہو چکی ہے، اس طرح لاکھوں طلبہ تاریکی میں دھکیلے جا رہے ہیں۔
ساتھ ہی مدارس کے اساتذہ بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں اساتذہ جو پہلے ہی قلیل وسائل میں کام کر رہے تھے، اب نہ کوئی باقاعدہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ کوئی پیشہ ورانہ تحفظ۔ مدارس کے اساتذہ میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن ان کے حقوق پر ملک گیر سطح پر سنجیدہ گفتگو کا فقدان ہے۔
اترپردیش مدرسہ بورڈ حکومت سے ہدایات کا منتظر ہے تاکہ ان مدارس کے خلاف کارروائی کی جا سکے جنہیں "غیر قانونی” قرار دیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کارروائیاں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔
مسلم برادری کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی منظم اور مؤثر نظام قائم کرے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی مدارس کی ایک آل انڈیا سطح کی فیڈریشن تشکیل دی جائے جو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تعاون سے مستقل کمیٹی قائم کرے تاکہ تعلیمی معاملات، مالی ضروریات اور مدرسہ زمین کی قانونی دستاویزات کی تیاری جیسے امور میں رہنمائی فراہم کی جا سکے۔
اس مقصد کے لیے کسی ایک بڑے مدرسے میں ایک مستقل دفتر قائم کیا جا سکتا ہے، جہاں علما اور قانونی ماہرین کی ٹیم ہمہ وقت موجود ہو۔ اگر کسی مدرسے کو سرکاری نوٹس موصول ہو تو فوری طور پر قانونی مشورہ لے کر کارروائی کی جا سکے۔ مدارس کے درمیان رابطہ و تعاون کا یہ نظم پورے نظام تعلیم کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025