اترا کھنڈ:مسلمانوں میں خوف و ہراس کا عالم ،بی جے پی اقلیتی سیل کے ضلع صدر بھی شہر چھوڑنے پر مجبور
اتر کاشی بی جے پی اقلیتی سیل کے ضلع صدر زاہد25 سال سے یہاں قیام پذیر تھے ،آدھی رات کو دکان اور مکان خالی کر کے شہر چھوڑ دیا
نئی دہلی،11جون :۔
اترا کھنڈ دنیا کے سب سے بڑی جمہوری ملک ہندوستان کی ایک ریاست ہے لیکن ان دنوں اترا کھنڈ میں مسلمانوں کو کھلے عام دھمکی دے کر شہر بدر کرنے کے جو واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں اس سے ایسا ہرگز نہیں محسوس ہوتا کہ اترا کھنڈ بھی ملک کی ہی ایک ریاست ہے۔ہندو لڑکی کے مسلم لڑکے کے ساتھ فرار ہو جانے کے واقعہ کو ہندو نواز تنظیموں نے لو جہاد کے مفروضہ کا نام دے کر پرولا شہر کے مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کر دی ہے ۔شدت پسندوں کی ہراسانی کا یہ معاملہ اب اترا کھنڈ کے پرولا ہی تک نہیں محدود رہا بلکہ اس کی آنچ نئی ٹہری تک پہنچ گئی ہے اور وہاں سے بھی مسلمانوں کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔شدت پسندوں کی خوف و دہشت کا عالم یہ ہے کہ حکمراں جماعت بی جے پی کی اقلیتی سیل کے عہدیداران بھی اپنا دکان اور مکان خالی کرنے پر مجبور ہیں ۔دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے ذریعہ 15 جون تک کے الٹی میٹم میں ابھی چار دن باقی ہے لیکن اس سے پہلے ہی مسلمان اپنی دکانیں اور مکانات خالی کر کے شہر سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بی جے پی اقلیتی سیل کے ضلع صدر محمد زاہد نے بھی اپنے پورے خاندان کے ساتھ شہر چھوڑ دیا ہے۔ بتا دیں کہ وہ گزشتہ 25 سال سے اسی شہر میں رہ رہے تھے اور بی جے پی اقلیتی سیل کے تحت سرگرم تھے۔محمد زاہد کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اگر شہر کا ماحول خراب ہوا تو سب کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور وہ ایسا نہیں چاہتے۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان پر کوئی دباؤ نہیں ہے، انہوں نے اپنی مرضی سے دکان خالی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے یہاں کا ماحول خراب کیا ہے جس کا خمیازہ انہیں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ زائد نے تین سال قبل بی جے پی جوائن کیا تھا ،رواں سال 03 فروری 2023 کو ضلع صدر کے طور پر نامزد کئے گئے تھے ۔ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق زائد کے قریبی نے بتایا کہ اقلیتی سیل کے ضلع صدر منتخب ہونے سے پہلے زائد بی جے پی کے ایک سر گرم رکن تھے اور پارٹی نے ان کی محنت اور لگن کو دیکھ کر انہیں صدر کے عہدے پر منتخب کیا لیکن آج مصیبت کے وقت پارٹی نے ان کی حمایت نہیں کی۔اور ان کو آدھی رات کو شہر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔زائد کے علاوہ دو مزید بی جے پی کے ممبران نے شہر چھوڑ دیا ہے ۔
واضح رہے کہ مقامی شدت پسند ہند و تنظیموں نے تاجروں کی تنظیم کے ساتھ ملک کرباہر کے تاجروں کو 15 دن میں گھر اور دکانیں خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ اس کو لے کر بھٹواڑی بلاک ہیڈ کوارٹر کے تاجروں اور مختلف دائیں بازو کی تنظیموں نے جمعرات کو بازار بند کر کے مظاہرہ بھی کیاتھا۔ دیو بھومی رکشا ابھیان کے بینر تلے ایک انتباہ دیا گیا ہے کہ 15 جون کو ہونے والی مہاپنچایت سے پہلے مسلمان اپنی دکانیں خالی کر دیں اور شہر چھوڑ دیں۔
دریں اثنا اتراکھنڈ کے اترکاشی میں بھڑکنے والی نفرت کی آگ اب ٹہری تک پہنچ گئی ہے، ہندوتوا پسندوں نے ٹہری کے مسلمانوں کو 15 دن میں دکانیں خالی کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ٹہری کے نین باغ میں ویاپار منڈل اور ہندو یوا واہنی نے مسلم تاجروں کو 15 دنوں کے اندر اپنی دکانیں خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔اس سلسلے میں ویاپار منڈل گروپ اور ہندو یوا واہنی نے ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم بھی پیش کیا ہے۔ ہندوتو نواز شدت پسندوں کا الزام ہے کہ 2021 میں نین باغ کے ایک کمپیوٹر کوچنگ سینٹر میں کام کرنے والے ایک مسلم نوجوان نے ایک مقامی لڑکی کو محبت کے جال میں پھنسایا تھا۔
دو سال پرانا واقعے کو پھر سے زندہ کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور خوف و دہشت کا ماحول قائم کیا جا رہا ہے ۔ ٹریڈ یونین کے صدر دنیش تومر کہتے ہیں کہ ہم نے 12 جون کو ایک میٹنگ بلائی ہے۔ اگر مقررہ وقت پر دکانیں خالی نہ کی گئیں تو مزید حکمت عملی بنائی جائے گی۔تنازعہ کو بڑھتے دیکھ کر پولیس انتظامیہ نے امن برقرار رکھنے کے لیے تمام فریقین کے ساتھ میٹنگیں کی ہیں، لیکن ہندوتوا تنظیمیں اپنے مطالبے پر بضد ہیں۔