اتراکھنڈ: مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں کا رجسٹریشن منسوخ
اترا کھنڈ میں کاروباری تنظیم نے91 ایسے دکانوں کو رجسٹریشن منسوخ کر دیاجو مسلمانوں کی ملکیت تھی،سی پی آئی (ایم ایل) کا منسوخی کے خلاف احتجاج
نئی دہلی،20مارچ :۔
اتراکھنڈ حکومت مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں سر فہرست بی جے پی ریاستوں میں شامل ہیں۔یو سی سی کا نفاذ ہو یا پھر مزارات،مدارس اور مساجد کے خلاف انہدامی کارروائی ۔اترا کھنڈ کی دھامی حکومت بغیر کسی تاخیر اور نوٹس کے کارروائی کرنے کے لئے مشہور ہو چکی ہے۔ اب ایک اور تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔ دھرچولا قصبے میں ایک تاجر تنظیم نے 91 دکانوں کارجسٹریشن منسوخ کر دیا، جن کو زیادہ تر مسلمان چلاتے ہیں۔یہ کارروائی اس واقعہ کو نظر میں رکھتے ہوئے کی گئی ہے کہ قصبے میں ایک حجام کی دکان پر کام کرنے والے ایک مسلم نوجوان دو نابالغ ہندولڑکیوں کے ساتھ فرار ہو گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ‘باہری لوگوں’ کو مکانات اور دکانیں کرائے پر نہ دیں، جس سے علاقے میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق دھرچولا ٹریڈ بورڈ کے جنرل سکریٹری مہیش گبریال نے کہا، ‘مقامی انتظامیہ سے گفتگو ومشورہ کے بعد 91 دکانوں کارجسٹریشن منسوخ کر دیا گیا ہے اور ان کے مالکان کو علاقہ چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے ہماری بیٹیوں کو ورغلا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’بریلی کے ایک حجام نے گزشتہ ماہ دو نابالغ لڑکیوں کو ورغلایا۔ اس کے بعد ہم نے 91 دکانداروں کی نشاندہی کی جو یہاں غیر قانونی طور پر کاروبار کر رہے تھے۔ انہوں نے ٹریڈ بورڈ کے ساتھ رجسٹر نہیں کرایا، جو اتراکھنڈ میں لازمی ہے۔
دریں اثنا کاروباری تنظیم کی اس کارروائی کے خلاف سی پی آئی ( ایم ایل ) نے احتجاج کیا ہے۔اس کارروائی کو فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی کارروائی قرار دیا ہے۔ جن منچ (پتھورا گڑھ) اور اتراکھنڈ کے سی پی آئی (ایم ایل) کے ایک وفد نے ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کی اور اقلیتی برادری کے دکانداروں کے رجسٹریشن کی منسوخی کے خلاف ایک میمورنڈم پیش کیا۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ مسلم دکانداروں کے خلاف چلائی جارہی مہم فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی زہریلی سیاست کا نتیجہ ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی تشویشناک ہے۔
مسلم نوجوان کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کو بھگانے کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ حکام صرف جرم کا الزام لگانے والے کو ہی ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس واقعہ کی آڑ میں پوری کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میمورنڈم کے ذریعے، وفد نے مقامی انتظامیہ اور ریاستی پولیس پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ میمورینڈم میں کہا گیا ہے کہ پوری ریاست میں آئین کے خلاف کارروائی جاری ہے مگر پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دی ہندو کے مطابق، جن 91 دکانداروں کا رجسٹریشن منسوخ کیا گیاہے، ان میں سے زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔
جبریال نے کہا کہ ایسوسی ایشن نے ان تمام تاجروں کے رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو 2000 سے پہلے دوسری ریاستوں سے یہاں آئے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘اب تک شہر کے کل 175 تاجروں کی شناخت ہو چکی ہے۔ یہ سبھی مغربی اتر پردیش کے رہنے والے ہیں۔ اگر ہم یہاں سے باہر کے لوگوں کو نکال دیں تو مقامی نوجوان کاروبار شروع کر کے روزی کما سکیں گے۔