آیوش مان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کو بڑے مسائل درپیش

سرکاری اسپتالوں کی خراب حالت کی وجہ سے بزرگ شہریوں کو مشکلات

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ٹیلی میڈیسن اور موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعہ قلیل مدتی حل کی ضرورت
ہمارے ملک میں تعلیم و صحت کا نظام بالکل خستہ ہے۔ شعبہ صحت کسمپرسی کے عالم میں ہے۔ سرکاری دواخانوں میں عام لوگوں کو ضروری سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ خصوصاً معمر آبادی ایک سرکاری دواخانے سے دوسرے دواخانے کا چکر کاٹتے ہوئے دم توڑ دیتی ہے۔ اس لیے ملک کی آبادی مالی مجبوریوں کے باوجود علاج کے لیے خانگی دواخانوں کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔ ضلعی دواخانوں میں ڈاکٹر وقت پر دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی ضروری ادویات۔ ایسے حالات میں مرکزی حکومت نے بزرگوں کی بہتر صحت و سلامتی کے لیے آیوشمان بھارت پردھان منتری آروگیہ یوجنا میں بہت ساری ضروری اجزا کو شامل کیا ہے۔ اس سے 70 سال اور اس سے زائد عمر کے سبھی بزرگوں کو صحت بیمہ کے دائرہ میں لایا گیا ہے۔ اس یوجنا سے استفادہ کے لیے آمدنی کی کوئی شرط نہیں ہے۔ اس سے ساڑھے چار کروڑ کنبوں کو فائدہ ملنے کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ آیوشمان بھارت کے تحت پہلے غریب ترین 40 کروڑ لوگوں کو 5 لاکھ روپے کا بیمہ تحفظ کا دائرہ (Provision) تھا۔ اب اس میں ان کے بزرگوں کو مزید 5 لاکھ روپے کی بیمہ سلامتی ملے گی جس سے ان خاندانوں کے دیگر ارکان کے ساتھ شراکت نہیں کرنی ہوگی، اس سینئر سٹیزن کو مرکزی حکومت کے دیگر بیمہ یوجنا کا فائدہ پہلے سے حاصل ہے، ان کے پاس یہ متبادل ہوگا کہ وہ پرانے بیمہ کے ساتھ رہیں یا آیوشمان بھارت یوجنا سے مستفید ہوں۔ جن لوگوں کے پاس خانگی کمپنی کی بیمہ پالیسی ہے یا ریاستی ملازمین کے لیے جاری یوجنا کا فائدہ بھی ملے گا۔ یقیناً اس بیمہ یوجنا میں وسعت اچھا قدم فیصلہ ہے۔ ہمارے ملک میں بزرگوں کی تعداد 15 کروڑ سے 2022 میں کچھ کم تھی، جو 2050 تک 35 کروڑ ہونے کا امکان ہے۔ ایسے تشویشناک معاشی اور طبی چیلنج کا مقابلہ کرنے میں اس بیمہ یوجنا سے کافی مدد ملنے کی توقع ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بزرگوں کو صحت بیمہ، بینک قرض، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ نہیں مل پاتے۔ اس کے علاوہ ویزا دینے میں بھی کئی طرح کے بہانہ بازیاں کی جاتی ہیں ۔ خانگی کمپنیاں بزرگوں سے زیادہ پریمیم وصول کرتی ہیں۔ ایسے بیروزگاری اور مہنگائی کے دور میں اولاد کو اپنا گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے اور بزرگ والدین سے بدسلوکی کے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس مسئلے پر قانون ضرور موجود ہے۔ ریاستی حکومتیں بزرگوں کو پیرانہ پنشن بھی دیتی ہیں مگر اس معمولی رقم کے لیے انہیں دفتروں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ضعیفی خود کمزوری ہے۔ اس لیے وہ مجرموں اور مختلف شعبوں کے دلالوں کے آسان شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر بزرگوں کو دوسروں پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ جن بزرگوں کے پاس بیمہ سلامتی نہیں ہے۔ علاج و معالجہ کے دوران ساٹھ سال سے زائد عمر کے بیس فیصد بزرگ خط افلاس سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں آیوشمان بھارت بیمہ ان کے لیے بہت مفید ہوگا۔ ہمارا ملک نوجوانوں کا ملک ہے، جہاں 60 فیصد نوجوان ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ یہ آبادی بھی بزرگ ہوتی جائے گی۔ ایسے حالات میں آیوشمان پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کے تحت 70 سال اور اس سے بڑی عمر کے لوگوں کو علاج کے لیے مالی فوائد مہیا کرانے کا اچھا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے سے سبھی بزرگوں کو فائدہ ہوگا۔ پہلے حکومت کا ماننا تھا کہ جو بزرگ مالی اعتبار سے اچھے ہیں وہ اپنا علاج آسانی سے کرا سکتے ہیں۔ اس میں ایک تبدیلی کی گئی ہے۔ اب اس منصوبے کا فائدہ 70 سال ہوتے ہی تمام شہریوں کو ملنے لگے گا۔ آج آیوشمان یوجنا کو دنیا میں سب سے بڑا علاج بیمہ مانا جا رہا ہے۔ معاشی طور پر بہتر ہو رہے ملک میں ضروری ہوگیا ہے کہ بزرگوں کی صحت کا انتظام ہو۔ اس سے کوئی بھی بزرگ پانچ لاکھ کے علاج کے لیے پریشان نہیں ہوں گے اور بزرگوں کی اکثریت کو نئی زندگی اس سے ملے گی۔ اب حکومت کو احساس ہوگیا ہے کہ شہریوں سے وصول کردہ ٹیکس سے عوام الناس مستفید ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ علاج پر بے تحاشا اخراجات کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ خط افلاس کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ مریض کو بچانے کے لیے لوگ قرض پر قرض لے لیتے ہیں۔ زمین و جائیداد فروخت کر دیتے ہیں۔ اس وقت بارہ کروڑ سے زائد کنبے اس کے دائرے میں ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امیر و متمول لوگوں کے علاوہ بھی عام لوگ ایسے ہی کسی یوجنا سے اپنا بہتر علاج کرا سکیں گے۔ اگرچہ ہمارا ملک معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے، لیکن سماجی اور معاشی سلامتی انتہائی کمزور ہے۔ طبی اخراجات بھی مہنگائی سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ معمولی مرض پر ہزاروں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ دوائیوں پر ٹیکس، صحت کی خدمات پر ٹیکسوں کے علاوہ علاج بیمہ پر ٹیکس عائد ہے۔ حکومت کے اندر سے بھی اس کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے کہ صحت بیمہ پر ٹیکس یا جی ایس ٹی مناسب نہیں ہے۔ اسے ختم کیا جانا چاہیے۔
اس یوجنا کے نفاذ میں بہت سارے چیلنجز ہیں۔ کیونکہ اکثر خانگی دواخانے اس یوجنا کے تحت علاج کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے دواخانوں کو سختی سے پابند کیا جانا چاہیے اور ذمہ دار افسروں کی نگرانی میں نگاہ رکھی جائے تاکہ کوئی بھی ضرورت مند یا بزرگ مالی کمی کی وجہ سے علاج سے محروم نہ رہ جائے۔ یہ اہم ہے کہ سینئر سٹیزن کے لیے الگ سے ہیلتھ کارڈ کے اجرا سے شعبہ صحت میں طبی نگہداشت تک رسائی بہتر ہوگی۔ جب تک حکومت کا طبی ڈھانچہ، مثلاً ڈیجیٹل لیٹرسی اور جغرافیائی رکاوٹوں کو دور نہیں کیا جاتا، تب تک بزرگوں کی بڑی تعداد اس یوجنا سے مستفید ہونے سے محروم ہی رہے گی۔ آن لائن انرولمنٹ سینٹرز اور موبائل سروسز اس یوجنا کے نفاذ کے لیے ضروری ہیں، جس کا ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے، کیونکہ دیہی علاقوں کے بزرگوں تک اس کی رسائی بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک کی طبی نگہداشت میں عملے کی شدید قلت ہے۔ AB-PMJAY کی وسعت سے یہ مسئلہ اور بھی بڑھ جائے گا۔ 2022 کے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ایک ہزار پر 0.7 ڈاکٹرز ہیں جو عالمی پیمانے پر 1.5 یعنی آدھے سے بھی کم ہے۔ اس طرح کی قلت دیہی علاقوں میں بہت سنگین ہے اور وہاں طبی عملہ بروقت نہیں مل پاتا ۔ Geriatric care بزرگوں کی صحت کے لیے ایک بڑا ایشو ہے۔ اس شعبے میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ دواخانوں میں تربیت کا فقدان ہے۔ جب تک ہمارے یہاں بزرگوں کی نگہداشت اور ان کے بہتر دیکھ بھال کے لیے بہت بڑے پیمانے پر طبی عملہ نہیں ہوگا، تو آیوشمان یوجنا مشکل میں ہی رہے گی۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ قلیل مدتی حل میں ٹیلی میڈیسن اور موبائل ہیلتھ یونٹ کا قیام ضروری ہوگیا ہے اور طویل مدتی پروگرام میں میڈیکل تعلیم کی ترقی اور اس کی وسعت ضروری ہوگئی ہے۔ جب تک ایسے چیلنجوں سے ہم موثر طریقے سے نبرد آزما نہیں ہوں گے تب تک بزرگوں کو عالمی معیار کی طبی نگہداشت تک لے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے
اسپیڈ ہیلتھ کیر انفراسٹرکچر پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی تاکہ مریضوں کے جم غفیر سے بھرے ہوئے دواخانے بزرگ شہریوں کو ایوشمان یوجنا کے تحت اچھا علاج فراہم کرسکیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024