
آسام میں بدعنوانی اور خوف کی سیاست پر کاری ضرب
’’سرما کو جیل بھیجیں گے، پھر نہ انہیں مودی بچا سکیں گے نہ ہی شاہ‘‘ وزیر اعلیٰ آسام کو راہل گاندھی کا انتباہ
دعوت نیوز کولکاتا بیورو
آسام کے مسلمان، بالخصوص بنگالی نژاد میاں برادری، عشروں سے ظلم، امتیاز اور ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ این آر سی، شہریت اور رہائش کے پیچیدہ مسائل نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، اور پولرائزیشن کی سیاست نے ان زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی مسلم قیادت کہاں ہے؟ کیا مسلم تنظیمیں اور مسلم رہنما اس برادری کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں؟
کیا کسی بھی اپوزیشن جماعت کی اندرونی میٹنگ کے راز کو افشا کرنا کسی وزیر اعلیٰ کا کام ہے؟
ظاہر ہے کہ نہیں، مگر آسام میں نفسیاتی خوف، ریاستی جبر اور سیاسی مخالفین کے خلاف ماورائے قانون کارروائی کے ذریعے ’گڈ گورننس‘ کا بیانیہ قائم کرنے والے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے لیے یہ ایک معمولی بات بن چکی ہے۔
دراصل 16جولائی کو گوہاٹی میں کانگریسی لیڈروں کی راہل گاندھی (اپوزیشن لیڈر برائے لوک سبھا) اور کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کے ساتھ بند کمرے کی میٹنگ کی خبریں لیک کر کے سرما یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ان کی رسائی سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔
اسی خوف کی سیاست کو راہل گاندھی نے نہ صرف بند کمرے کی میٹنگ میں للکارا بلکہ اس کا اعادہ عوامی جلسے میں کر کے گزشتہ دس برسوں سے آسام میں جاری دہشت، ڈر اور غنڈہ گردی کی سیاست پر کاری ضرب لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی کی تقریر کے بعد آسام کی سیاست کا بیانیہ ہی بدل چکا ہے — جو دوسروں کو خوفزدہ کیا کرتے تھے، آج خود نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔
16 جولائی کو راہل گاندھی نے آسام میں جو تقریر کی وہ خوف اور مایوسی سے بھرے گھٹن زدہ ماحول میں امید کی ایک کرن ثابت ہوئی۔
راہل گاندھی نے آسام میں وہی بیانیہ آگے بڑھایا جو وہ قومی سطح پر مسلسل دہراتے رہے ہیں ۔ ’’ڈرو مت، اور ڈراؤ مت‘‘۔
دراصل خوف اور ڈر فاشسٹ قوتوں کا پرانا حربہ رہا ہے۔ بہتر حکم رانی قائم کرنے کی صلاحیت سے عاری یہ طاقتیں ڈرا کر اقتدار کو طول دیتی ہیں۔
2014 کے بعد ملک بھر میں ڈر کی سیاست کا کھل کر کھیل کھیلا گیا۔ اقلیتوں، کمزور طبقات، سیاسی مخالفین اور ناقدین کو ہر ممکن طریقے سے خوف زدہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ جب کسی نے مخالفت کی آواز بلند کی تو اُسے خاموش کرانے کی کوشش کی گئی — چاہے وہ شاہین باغ کی تحریک ہو یا کسان تحریک، ہر جگہ خوف کو ہتھیار بنایا گیا۔
تاہم 2024 کے بعد ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اپوزیشن، بالخصوص راہل گاندھی نے خوف کے اس بیانیے کو للکارا اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔
ہیمنت بسوا سرما آسام کے وزیر اعلیٰ کے طور پر چار برس مکمل کر چکے ہیں، اور اگر ان کے اقتدار کے دور کو چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا دور ’’ڈر، خوف اور طاقت کا بے دریغ استعمال، آئین و قانون کی پامالی، سیاسی مخالفین پر ظلم اور ریاستی جبر‘‘ سے عبارت رہا ہے۔
آسام میں سرما کے خلاف احتجاج کی جرأت ہی جرم بن گئی تھی۔ سیاسی مخالفین، میڈیا اہلکار، سول سوسائٹی اور سماجی کارکن سب خوف کے ماحول میں دبک گئے تھے۔ دوسری طرف، فرقہ پرستی کا کارڈ کھیل کر بدعنوانی اور اقربا پروری کو حکم رانی کا لازمی جزو بنا دیا گیا۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے گوہاٹی سے تقریباً 40 کلومیٹر دور شاؤگاؤں میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے آسام کے عوام کے سامنے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی مبینہ بدعنوانیوں اور غنڈہ گردی کے ذریعہ عام شہریوں کی زمینیں ہڑپنے کے معاملے کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا’’کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے، مگر وہ یہ نہ بھولے کہ اقتدار دائمی نہیں ہوتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جب کانگریس اقتدار میں آئے گی تو سرما کو بدعنوانی اور اقربا پروری کے ایک ایک جرم کا حساب دینا ہوگا اور اس کی آخری منزل جیل ہو گی۔ راہل گاندھی نے بند کمرے کی باتوں کو عوامی جلسے میں دہرا کر سرما کے گڑھے ہوئے بیانیے کو چیلنج کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12–13 برسوں میں ہندتوا اور کارپوریٹ گٹھ جوڑ نے ملک کی دولت کو بے دردی سے لوٹا ہے۔ عوام کو ہیجان انگیز نعروں میں الجھا کر، مذہبی جذبات بھڑکا کر یہ لوگ کارپوریٹ گھرانوں کے ذریعے ملک کے وسائل ہتھیا چکے ہیں۔
آسام میں بھی سرما نے سرکاری زمین سے مسلمانوں کی بے دخلی کی مہم کے ذریعے اکثریتی طبقے کو خوش کیا اور پھر وہی زمین کارپوریٹ اداروں کو معمولی قیمت پر فروخت کی۔ راہل گاندھی نے اس گھوٹالے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’وہ چوبیس گھنٹے زمین ہتھیانے میں لگا ہوا ہے۔ آپ کی زمین اور کمائی اڈانی و امبانی کو سونپی جا رہی ہے۔ دوسروں کو ڈرانے والا خود اپنی تقریروں میں خوفزدہ نظر آتا ہے۔‘‘ انہوں نے گورو گوگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک دن کانگریس کے شیر اس کا مواخذہ کریں گے اور اسے جیل میں ڈال دیں گے۔ وہ خود جانتا ہے کہ ایک دن اسے اور اس کے خاندان کو بدعنوانیوں کا حساب دینا پڑے گا۔ آپ کا وزیر اعلیٰ کچھ وقت بعد جیل میں ہوگا اور پھر نہ مودی، نہ ہی امت شاہ اسے بچا سکیں گے۔ یہ کام عوام کریں گے۔‘‘
گزشتہ 78 برسوں میں آسام کی سیاست مقامی اور غیر مقامی یا پھر بنگالی نژاد اور آسامی النسل کی تقسیم کے گرد گھومتی رہی ہے۔ مگر قومی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ آسام میں بھی لسانی و نسلی عصبیت، ہندتوا نظریے کے ساتھ خلط ملط ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں آسامی تہذیب، ثقافت اور وراثت شدید طور پر مجروح ہوئی ہے۔ آسامی وراثت و ثقافت پر فرقہ واریت کا رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔
اس تبدیلی میں جن لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ان میں ہیمنت بسوا سرما کا نام سب سے نمایاں ہے۔ سرما نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے خوف، بربریت اور ریاستی جبر کا سہارا لیا۔
لوک سبھا انتخابات سے قبل جب راہل گاندھی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے تحت آسام پہنچے تو انہیں کئی مقامات پر ریلیوں کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور گوہاٹی میں داخل ہونے سے بھی روک دیا گیا۔ بعد میں سرما نے انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔
فاشسٹ نظریہ جھوٹ، گمراہ کن دعوؤں اور الزامات کے سہارے آگے بڑھتا ہے۔ چنانچہ آسام میں بھی اپوزیشن اور ناقدین کی آواز کو مکمل طور پر دبا دیا گیا ہے۔
آسام میں خوف کا جو عالم ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ گوہاٹی یونیورسٹی میں شعبہ عربی و فارسی کے اساتذہ کے سامنے ایک شناسا ریسرچ اسکالر نے آسام میں عربی و فارسی کے اثرات پر تحقیق کی تجویز رکھی تو اساتذہ نے آسام کے موجودہ حالات کا حوالہ دے کر تجویز کو مسترد کر دیا۔ جب تعلیمی اداروں میں اس قدر خوف کا ماحول ہے تو عام شہریوں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
کانگریس کی ایک مسلم خاتون رہنما نے واضح طور پر کہا کہ وہ پارٹی کے جلسوں میں شریک تو ہوں گی مگر بسوا سرما کے خلاف کچھ نہیں بولیں گی۔
کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سرما کے لوگ ہر پارٹی اور ہر ادارے میں موجود ہیں۔ وہ ماضی میں سابق وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی کے قریبی تھے، تب بھی یہی سب کچھ اپنے جونیئر ساتھیوں سے کرواتے تھے اور اب بطور وزیر اعلیٰ خود کر رہے ہیں۔
سرما نے اپنے ابتدائی دورِ حکومت میں اے یو ڈی ایف (مولانا بدرالدین اجمل) پر غیر قانونی چندہ جمع کرنے اور ملک دشمن طاقتوں سے روابط کے الزامات عائد کیے تھے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر گورو گوگوئی کی اہلیہ کے خلاف بھی سنگین دعوے کیے گئے۔ ان کا مقصد واضح تھا کہ الزامات کی بوچھاڑ کر کے سیاسی مخالفین کو خاموش کر دیا جائے۔
گورو گوگوئی کی اہلیہ جو ایک غیر ملکی ہیں، ماضی میں ایک بین الاقوامی ادارے کے لیے کام کر چکی ہیں اور اسی دوران وہ پاکستان بھی جا چکی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ صرف پاکستان کا دورہ کرنا کسی کو ملک دشمن یا غدار تو نہیں بناتا۔
تاہم سرما بار بار اسی بہانے کانگریس پر ملک دشمن طاقتوں سے تعلقات کا الزام عائد کرتے رہے اور خوف کی سیاست کو فروغ دیتے رہے۔ اس مرتبہ کانگریسی قیادت نے ان کے حربوں کا مؤثر جواب د۔ گورو گوگوئی کو ریاستی کانگریس کی قیادت سونپ کر سرما کے خوف پر پہلا وار کیا گیا۔ اب راہل گاندھی نے سرما کی بدعنوانی اور غنڈہ گردی کو نشانہ بنا کر انہیں جیل بھیجنے کی دھمکی دی ہے، جس سے آسام کی سیاست کا بیانیہ یکسر بدل چکا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں سرما اور ان کے قریبی لوگوں کے خلاف بد عنوانی اور زمین پر قبضے کے متعدد الزامات سامنے آ چکے ہیں۔ حقِ اطلاعات (RTI) کے تحت حاصل کردہ کئی معلومات میں سرما کی بدعنوانیوں اور طرز حکم رانی کے تضادات بے نقاب ہو چکے ہیں۔
حال ہی میں ’’گورکھوٹی زرعی پروجیکٹ‘‘ کے گھوٹالے کا انکشاف ہوا ہے۔
2021 میں اس پروجیکٹ کے لیے ضلع درنگ میں 1400 مسلمانوں کے مکانات منہدم کر دیے گئے تھے۔ اسی واقعے میں 12 سالہ شیخ فرید اور امین الحق کو پولیس نے گولی مار دی اور ایک سرکاری فوٹوگرافر نے لاش پر گاڑی چڑھا دی۔ یہ لوگ گزشتہ چالیس برسوں سے کاشت کاری کر رہے تھے۔
نام نہاد ’’آرگینک فارم‘‘ جو مبینہ طور پر دیسی لوگوں کے روزگار کے لیے بنایا گیا تھا، اب بدعنوانی کا مرکز بن چکا ہے۔
پروجیکٹ کے لیے جو گائیں خریدی گئی تھیں انہیں بی جے پی کے ارکان اسمبلی اور وزرا آپس میں بانٹ چکے ہیں۔
اسمبلی میں حکومت نے جو اعداد و شمار دیے اور جو تفصیلات RTI سے حاصل ہوئیں، ان میں واضح تضاد پایا گیا ہے۔
گورکھوٹی واقعے نے ثابت کر دیا کہ سرما حکومت نے تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور جانبداری و بد عنوانی ان کی طرزِ حکم رانی کا بنیادی ستون بن چکی ہے۔
ان الزامات کی زد میں صرف ہیمنت بسوا سرما اور ان کی اہلیہ ہی نہیں بلکہ ان کے قریبی رفقا بھی شامل ہیں۔
ہیمنت بسوا سرما جیسے تجربہ کار سیاست داں بخوبی جانتے ہیں کہ آسام میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں، ایسے میں عوامی فنڈز کے غلط استعمال اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار کے الزامات ان کی شبیہ کو سخت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بی جے پی میں بھی ان کے مخالفین کی کمی نہیں ہے، چنانچہ 2026 میں وزارتِ اعلیٰ کی امیدواری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اب توجہ گورو گوگوئی سے ہٹا کر ایک بار پھر بنگالی نژاد مسلمانوں کی طرف کر دی ہے۔
مسلسل انہدامی کارروائیاں جاری ہیں گوالپارہ میں انہدامی کارروائی اور ریاستی جبر کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ میں ایک 19 سالہ مسلم نوجوان جاں بحق ہوا۔ اس پر بھی سرما نے الزام راہل گاندھی پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے بیان سے حوصلہ پا کر ہی ’میاں‘ مسلمان احتجاج کر رہے ہیں۔
حالانکہ بی جے پی گزشتہ نو برسوں سے آسام میں برسر اقتدار ہے، مگر عوامی مسائل — جیسے سیلاب، بنیادی سہولیات، اور گوہاٹی سمیت دیگر شہروں کی ترقی — کے حل میں ناکام رہی ہے۔ کچھ بڑے پروجیکٹس ضرور شروع کیے گئے مگر ان کا فائدہ عام شہریوں تک نہیں پہنچا۔ ملک کا سب سے بڑا ایرپورٹ تعمیر کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آسام جیسے غریب و پسماندہ خطے میں کتنے لوگ ہوائی سفر کرتے ہیں؟ ’لینڈ جہاد‘، ’سیلاب جہاد‘، اور ’تعلیم جہاد‘ جیسے فرقہ وارانہ نعروں سے وقتی طور پر عوام کو گمراہ کیا جا سکتا ہے مگر ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں۔ نسلی، لسانی اور مذہبی طور پر منقسم آسام کے عوام سرما کی حقیقت کو جان چکے ہیں۔ آل آسام اسٹوڈنٹ یونین (آسو) جو نظریاتی طور پر بی جے پی کی قریبی سمجھی جاتی ہے، آج خود محکمہ آب پاشی میں بدعنوانی کے خلاف ریاست گیر احتجاج کر رہی ہے۔
یہ واضح اشارہ ہے کہ عوامی سطح پر سرما حکومت کی مقبولیت شدید متاثر ہوئی ہے۔ سرما کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے جارحانہ تیور، فرقہ وارانہ بیانات اور لسانی و نسلی نفرت انگیزی کے جواب میں گورو گوگوئی نے عوامی مسائل کو سیاسی گفتگو کا مرکز بنا دیا ہے۔ سرما نے حلقہ بندی کے ذریعے لوک سبھا انتخابات میں گوگوئی کا حلقہ چھیننے کی کوشش کی مگر گوگوئی نے اپنے روایتی حلقے کے بجائے جورہاٹ سے انتخاب لڑنے کا چیلنج قبول کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔ سرما اور ان کی پوری کابینہ گوگوئی کو شکست دینے میں ناکام رہی جو ان کے لیے ایک بڑی سیاسی شکست تھی۔ یہی وہ خوف ہے جو سرما کو ستا رہا ہے اور راہل گاندھی نے اسی خوف پر کاری وار کیا ہے۔ سرما نے راہل گاندھی کے خلاف پلٹ کر وار کرتے ہوئے پولیس فائرنگ کا الزام ان پر ڈالنے کی کوشش کی مگر ان کے تمام تیر خالی جا رہے ہیں۔
راہل گاندھی کے بیانات سے نہ صرف کانگریسی رہنماؤں اور کارکنوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں بلکہ بی جے پی کے اندر بھی کشیدگی کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔
اپنے آپ کو رابن ہڈ اور طاقتور لیڈر کے طور پر پیش کرنے والے سرما کو آج اپنی پارٹی کے اندر بھی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ سونووال نے 2021میں اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ خالی ضرور کیا مگر انہوں نے اپنی دعویداری واپس نہیں لی ہے۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات نے ان کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ اس کے علاوہ آسام بی جے پی کے صدر اور راجیہ سبھا کے رکن دلیپ سائکیا بھی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار بن کر ابھر رہے ہیں۔
***
اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے گوہاٹی سے تقریباً 40 کلومیٹر دور شاؤگاؤں میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے آسام کے عوام کے سامنے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی مبینہ بدعنوانیوں اور غنڈہ گردی کے ذریعہ عام شہریوں کی زمینیں ہڑپنے کے معاملے کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا’’کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے، مگر وہ یہ نہ بھولے کہ اقتدار دائمی نہیں ہوتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جب کانگریس اقتدار میں آئے گی تو سرما کو بدعنوانی اور اقربا پروری کے ایک ایک جرم کا حساب دینا ہوگا اور اس کی آخری منزل جیل ہو گی
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025