آسام این آر سی کنوینر پرتیک ہجیلا کامدھیہ پردیش تبادلہ کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے مانگا وقت

عدالت عظمی نے مرکز اور آسام حکومت کو 18 اکتوبر کو ہدایت دی تھی کہ آسام این آر سی کنوینر پرتیک ہجیلا کو سات دنوں کے اندر ان کی آبائی ریاست مدھیہ پردیش میں تبادلہ کرے

نئی دہلی: مرکزی حکومت این آر سی کے کنوینر پرتیک ہجیلا کے مدھیہ پردیش تبادلہ کرنے سے متعلق ضابطہ پورا کرنے کی مدت کاربڑھانے  کے لیے جمعرات کو سپریم کورٹ پہنچی۔ عدالت نے مرکز اور آسام حکومت کو 18 اکتوبر کو ہدایت دی تھی کہ ہجیلا کو سات دنوں میں ان کی آبائی ریاست مدھیہ پردیش تبادلہ کر دیا جائے۔ حالانکہ عدالت نے تبادلہ کرنے کی کوئی واضح وجہ نہیں بتائی تھی، لیکن ایسا بتایا جا رہا ہے کہ پرتیک ہجیلا کی جان کو خطرہ ہے، جس کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا۔

مرکز کے وکیل نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی بینچ سے جمعرات کو کہا کہ حالانکہ حکومت نے آسام-میگھالیہ کیڈر کے 1995 بیچ کے آئی اے ایس افسر کا تبادلہ کرنے کے لیے قدم اٹھائے ہیں، لیکن  ضابطہ پورا کرنے میں کچھ اور وقت لگے‌گا۔ جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس اے نذیر بھی بنچ میں شامل ہیں۔ بنچ نے کہا، ‘ آپ عرضی دائر کیجئے۔ ‘

ہجیلا کو سپریم کورٹ نے این آر سی کو فائنل  صورت دینے اور ا س کے اعداد و شمار کی اشاعت کی حساس قواعد کے لیے کنوینر مقرر کیا تھا۔سپریم کورٹ نے ہجیلا کو  ممکنہ مدت کے لئے انٹر- کیڈرتبادلے پر ان کی آبائی ریاست میں ڈیپوٹیشن پر بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ بنچ نے اس حکم کو منظور کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی، لیکن اس سے ان قیاس آرائیوں کو طاقت ملی کہ آسام این آر سی کو فائنل صورت  دینے کے بڑے اور حساس کام کی نگرانی کے بعد اس افسر کو شاید کسی قسم کے خطرے کا خدشہ ہے۔

سپریم کورٹ نے آسام این آر سی سے متعلق عرضی کی سماعت کے لیے پہلے ہی 26 نومبر کے لیے لسٹیڈ کی ہے۔ آسام این ار سی کو فائنل صورت دیے جانے کے بعد 31 اگست کو شائع ہوئی تھی۔ اس سے ریاست میں 19 لاکھ سے زیادہ  درخواست گزاروں کے نام باہر کر دئے گئے تھے۔ این آر سی میں نام شامل کرنے کے لیے 33027661 لوگوں نے درخواست دیی تھی۔ ان میں سے 31121004 لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے جبکہ 1906657 کو اس سے باہر رکھا گیا۔

این آر سی کے پہلے مسودہ میں 1.9 کروڑ لوگوں کے نام شائع ہوئے تھے۔ یہ مسودہ 31 دسمبر، 2017 کی  رات کو شائع کیا گیا تھا۔ پرتیک ہجیلا آسام میگھالیہ کیڈر کے 1995 بیچ کے آئی اے ایس آفیسر ہیں۔ ان کو آسام میں این آر سی کے پورے پروسیس کی نگرانی کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ 31 اگست کو جاری این آر سی کی فائنل لسٹ میں مبینہ طورپر بے ضابطگیوں کی وجہ سے پچھلے مہینے ہجیلا کے خلاف دو معاملے درج کیے گئے تھے۔

اس بیچ گزشتہ 22 اکتوبر کو این آر سی کی مانگ کرنے والے اصل درخواست گزار آسام پبلک ورکس (اے پی ڈبلیو) نے حکومت سے اپیل کی کہ جب تک این آر سی کے پورے پروسیس کا آڈٹ مکمل نہیں ہو جاتا، تب تک کے لیے این آر سی کے آسام ریاستی کنوینر پرتیک ہجیلا کا پاسپورٹ ضبط کر لیا جائے۔ اے پی ڈبلیو نامی تنظیم کے صدر ابھیجیت شرما نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہجیلا این آر سی کے پروسیس کے آڈٹ کی تفتیش پوری ہونے تک ملک سے باہر نہ جا پائیں۔

شرما نے کہا تھا کہ حکومت پر یہ پتہ لگانے کی بڑی ذمہ داری ہے کہ ایک افسر جس نے کا 1600 کروڑ روپے کی سرکاری رقم  خرچ کی ہو ، وہ خرچ کی تفصیلی رپورٹ جمع   کیے بغیر کیسے آسام چھوڑ سکتا ہے۔

(ایجنسیاں)