آسام:’لو جہاد’ کے الزام میں ہجومی تشدد کے شکار مسلم نوجوان کو ہی پولیس نے کیا گرفتار

پوکسو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ،بجرنگ دل کے دباؤ میں گرفتاری ہوئی ہے،متاثرہ کے اہل خانہ  کا الزام ،ویڈیو شواہد کے باوجود پولیس نے مارنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی

نئی دہلی ،19 اگست :۔

بی جے پی کی قیادت والی ریاستوں میں عام طور پر ہجومی تشدد  کے خلاف کی جانے والی کارروائی الٹی ہی ہوتی ہے ۔زیادہ تر معاملوں میں مظلوم شخص پر ہی پولیس مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے گرفتار کر لیتی ہے اور جو لوگ ماب لنچنگ کے اصل گنہگار ہوتے ہیں وہ پھر دوسرے شکار کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔خاص طور پر جب شکار اور مظلوم مسلمان ہو۔

تازہ معاملہ آسام کا ہے جہاں علی احمد نامی ایک مسلم نوجوان کو جمعہ کے روز  کچھار ضلع میں ہندو نوجوانوں کے ہجوم کے ذریعہ  بے رحمی سے پٹائی کی گئی ۔ جم کر  مارا پیٹا گیا  اور بھیڑ نے لو جہاد کا الزام عائد کیا۔  چند   گھنٹوں بعد  پولیس  ہجوم کی شکایت پر اسی مظلوم اور متاثرہ نوجوان کو ہی گرفتار کر لیتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ سنائی تھانہ علاقے کے تحت نرسنگ پور میں ایک ہائر سیکنڈری اسکول کے قریب پیش آیا جہاں 12ویں جماعت کا طالب علم علی یوم آزادی پر اپنی خاتون دوست سے ملنے گیا تھا۔ دونوں ہم جماعت تھے اور دسویں جماعت تک ساتھ پڑھتے تھے۔صبح 8 بجے کے قریب، جب علی اور لڑکی بات کر رہے تھے،  تو ہندوؤں کا ایک گروپ  ان کے پاس سے گزار اور اس کا نام  پوچھا۔ علی نے بتایا کہ انہوں نے میرا نام پوچھا اور جب میں نے علی احمد کہا تو انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔

اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو ررہی ہیں۔ ایک ویڈیو میں علی کو بغیر قمیض اور کھمبے سے بندھا ہوا نظر آرہا ہے، اس کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، اسے رسی سے گھسیٹا جا رہا ہے اور ہجوم کے سامنے پریڈ کیا جا رہا ہے۔ لڑکی، جس پر بھی حملہ کیا گیا، پس منظر میں روتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

علی کے اہل خانہ کی جانب سے شکایت درج کرانے کے باوجود حملہ کے سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ تاہم علی کو خود لڑکی کے اہل خانہ کی شکایت کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا۔ کچھار کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نمل مہتا نے تصدیق کی کہ لڑکے کو لڑکی کے بیان کی بنیاد پر پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل آفنسز (پوکسو) ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

علی کے چچا رحیم الدین باربھویاں نے الزام لگایا کہ ہندوتوا گروپ بجرنگ دل کی مداخلت کے بعد صورتحال مزید بڑھ گئی۔ بربھویان نے کہا، ”علی کو بجرنگ دل کے دباؤ میں گرفتار کیا گیا ۔ "میرے بھتیجے کو بری طرح مارا پیٹا گیا اور ویڈیو ثبوت ہونے کے باوجود، پولیس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ یہ سراسر ناانصافی اور امتیازی سلوک ہے۔