آسام:ریاستی پولیس کی ظلم و زیادتی کے شکار پانچ مسلم خاندانوں کو معاوضہ
آسام حکومت کے ذریعہ غیر قانونی طریقے سے مسمار کئے گئے گھرکے خلاف قانونی جنگ میں دو سال بعد عدالت کے حکم پر ملا معاوضہ
نئی دہلی،23 مئی :۔
آسام میں پولیس کی زیادتی کے شکار ہوئے پانچ مسلم خاندانوں کو دو سال کی قانونی جنگ کے بعد عدالت کے حکم سے معاوضہ ملا ہے۔گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس موقع پر پولیس کی سخت سر زنش کی ۔رپورٹ کے مطابق آسام حکومت نے بدھ کے روز گوہاٹی ہائی کورٹ کو بتایا کہ اس نے ان پانچ مسلم خاندانوں کو 30 لاکھ روپے معاوضے کے طور پر ادا کیے ہیں جن کے گھروں کو 2022 میں نگاؤں کے ایک پولیس اسٹیشن پر حراست میں ایک مسلم نوجوان کی موت کے بعد حملہ کے بعد ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا تھا۔
شمال مشرقی ریاست میں بی جے پی حکومت کو پہلےہی گوہاٹی ہائی کورٹ نے انہدام سے متاثرہ افراد کو معاوضہ فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق واقعہ یہ کہ 21 مئی 2022 کو بٹا دروا پولیس اسٹیشن میں ایک مچھلی کاروبار محفوظ الاسلام کی پولیس کی حراست میں موت ہو گئی ۔جس کے بعد مشتعل ہجوم نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا اور اسے نذر آتش کر دیا۔ تھانے کو جلائے جانے کے ایک دن بعد پولیس نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے متوفی محفوظ الاسلام کے رشتہ داروں کے ہی گھروں کو منمانی طریقے سے مسمار کر دیاتھا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز بدھ کو، آسام حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ ڈی ناتھ نے عدالت کو بتایا کہ نگاؤں کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے پیر کو پانچ خاندانوں کو معاوضے کی رقم ادا کر دی ہے۔
دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق یہ معاوضہ دو پکے مکانات اور چار عارضی مکانات کے انہدام کے طور پر دیا گیا ہے۔ناتھ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت نے اسلام کے خاندان کے لیے 2.5 لاکھ روپے کا معاوضہ منظور کیا ہے۔
گزشتہ 3 مئی سماعت کے دوران گوہاٹی ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ انکوائری نے تسلیم کیا ہے کہ اسلام کی موت حراستی موت کا معاملہ تھا۔ عدالت نے کہا، ’’یہ ریاست کی غیر ذمہ داری کا واضح معاملہ ہے۔