نئی لوک سبھا میں بھی آبادی کے لحاظ سےمسلمانوں کی نمائندگی میں کمی

18ویں لوک سبھا میں  صرف 24 ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئے،مغربی بنگال سے سب سے زیادہ 6

نئی دہلی ،06 جون :۔

4 جون کو 18ویں لوک سبھا کے انتخابی نتائج کا اعلان ہندوستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک تبدیلی کا اشارہ  ہے۔ جس اعتماد کے ساتھ اور جارحانہ طریق سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)”اب کی بار 400 پار” کے نعروں کے ساتھ مہم چلائی تھی، اس کو زبردست جھٹکا کاسامنا کرنا پڑا اور وہ صرف 235 سیٹوں تک محدود رہی ۔مکمل اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی ۔یقینی طور پر بی جے پی کی یہ خراب کر کردگی نے وینٹی لیٹر پر پہنچے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے لیے  کھل کر سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔اسی لئے یہ مانا جا رہا ہے کہ موجودہ الیکشن کا نتیجہ سب کے لئے خوشی فراہم کرنے والا ہے۔اس نتیجے میں تمام پارٹیوں اور رہنماؤں نے اپنے اپنے نے اظہار مسرت کا موقع تلاش کر لیا ہے۔

دوسری جانب راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے انڈیا اتحاد میں 295 سیٹیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ اپنے بل بوتے پر صرف 99 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو سکی۔ ان نتائج کے باوجود، جسے کچھ لوگ ہندوستان میں سیکولرازم کی فتح قرار دے رہے ہیں،اور جمہوریت کی واپسی کی راہ قرار دے رہ ہیں مسلمانوں کے لئے مایوس کن ہے،ایوان میں مسلمانوں کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے کم ہے ۔گزشتہ دو تین لوک سبھا سے مسلسل مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی کا سلسلہ جاری رہتے ہوئے اس بار بھی   نئی لوک سبھا کے لیے صرف 24 مسلم اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔

یا درہے کہ تاریخی طور پر، 1980 میں لوک سبھا میں سب سے زیادہ مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 42 تھی، جبکہ 2014 میں سب سے کم تعداد 22 تھی۔ مسلمان جو ہندوستان میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے ،اور متعدد انتخابی حلقوں میں فیصلہ کن کردار میں ہیں اس کے باوجود گشتہ تین انتخابات سے مسلسل نمائندگی میں کمی دیکھی جا رہی ہے ۔

اس بار بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں سرگرم تھی اور اس نے سب سے زیادہ تعداد میں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا۔مگر ایک بھی سیٹ جیتنے میں نا کام رہی ۔اس کے پس پردہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہ کہ بی ایس پی کی سیاسی پالیسی  کی وجہ سے مسلمانوں نے اسے نظر اندار کر دیا۔ مایا وتی کی سیاسی اس حکمت عملی کو انڈیا الائنس کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھاگیا۔ ایک قابل ذکر مثال امروہہ سے کنور دانش علی ہیں، جنہوں نے پہلے بی ایس پی کے ٹکٹ سے لوک سبھا کی سیٹ جیتی تھی لیکن اس بار کانگریس سے مقابلہ کرتے ہوئے 28,670 ووٹوں سے ہار گئے۔ اسی حلقے سے بی ایس پی کے مجاہد حسین 1,64,099 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

مغربی بنگال سے 18ویں لوک سبھا میں سب سے زیادہ مسلم ممبران پارلیمنٹ منتخب  ہوئے ہیں، جس میں چھ فاتح ہیں۔ اس کے بعد اترپردیش سےپانچ، کیرالہ اور جموں و کشمیر میں تین، بہار اور آسام میں دو دو، اور لکشدیپ، تلنگانہ، تمل ناڈو اور لداخ میں ایک ایک مسلم رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔

پارٹی کے لحاظ سے، کانگریس کے پاس سب سے زیادہ  سات مسلم ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کے پاس پانچ جبکہ سماج وادی پارٹی کے پاس چار ہیں۔ انڈین یونین مسلم لیگ کے پاس تین، نیشنل کانفرنس کے پاس دو، اور اسد الدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم اور دو آزاد امیدوار ہیں۔

واضح رہے کہ2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں تقریباً 172.5 ملین مسلمان  ہیں اور ملک کی کل  آبادی کا 14.02% ہیں،جبکہ  لوک سبھا میں ان کی نمائندگی محض 4.4 فیصد ہی ہے۔ جبکہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے نے 292 سیٹیں جیتنے میں کامیابی حاصل کی لیکن سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والی پارٹی میں ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں ہےبلکہ بی جے پی نے صرف کیرالہ سے ایک مسلم کو اپنا ٹکٹ دیا تھا ۔