مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بنیادی حق نہیں ہے: الہ آباد ہائی کورٹ
نئی دہلی، مئی 7: لائیو لاء کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے کہا کہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بنیادی حق نہیں ہے۔
عدالت نے یہ مشاہدہ اتر پردیش کے دھورنپور گاؤں کے رہائشی عرفان کی درخواست کے جواب میں کیا، جس نے اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ انھوں نے تحصیل بسولی کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے حکم کو چیلنج کیا تھا، جس نے اذان کے لیے ساؤنڈ ایمپلیفائر کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی۔
دی ہندو کے مطابق عرفان نے دعویٰ کیا تھا کہ سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے حکم سے ان کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
جسٹس وویک کمار برلا اور وکاس بدھوار پر مشتمل بنچ نے تاہم کہا کہ درخواست کو واضح طور پر غلط فہمی میں ڈالا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے 4 مئی کو کہا ’’قانون اب طے پا گیا ہے کہ مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بنیادی حق نہیں ہے۔‘‘
مئی 2020 میں ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ اذان اسلام کا لازمی جزو ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہیں۔ عدالت نے مؤذن یعنی اذان دینے والے فرد کو کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے درمیان اذان دینے کی اجازت دی تھی۔ تاہم اس نے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی۔
اپریل میں اتر پردیش پولیس نے عبادت گاہوں سے غیر مجاز لاؤڈ اسپیکرز کو ہٹانے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک مہم چلائی کہ وہ مجاز آواز کی حد کے اندر کام کریں۔ پی ٹی آئی کے مطابق اس مہم کے دوران کل 10,923 غیر مجاز لاؤڈ اسپیکرز کو ہٹا دیا گیا۔
مزید برآں خبر ایجنسی نے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (امن و امان) پرشانت کمار کے حوالے سے بتایا تھا کہ 35,221 لاؤڈ اسپیکروں کا حجم قابل اجازت حدود کے اندر مقرر کیا گیا تھا۔
دریں اثنا مہاراشٹر نو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے بھی اپریل سے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے خلاف مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز ٹھاکرے نے کہا کہ ان کی پارٹی کے کارکنان مساجد کے باہر ہنومان چالیسہ بجاتے رہیں گے اگر وہاں سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹائے جاتے۔