امریکہ نے 20 سالہ طویل جنگ کا اختتام کیا، آخری امریکی فوجی بھی افغانستان سے نکلا
افغانستان، اگست 31: امریکہ نے پیر کو افغانستان سے اپنے فوجیوں کا انخلا مکمل کرتے ہوئے 11 ستمبر 2001 کو نیویارک شہر میں دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہونے والی 20 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ امریکی صدر جو بائیڈین نے افغانستان سے نکلنے کے لیے 31 اگست کی ڈیڈلائن مقرر کی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق طالبان نے آج علی الصباح بندوق کی گولیوں کے ساتھ امریکی فوج کے انخلا کا جشن منایا اور انھوں نے اس تقریب کو ایک آبی لمحہ قرار دیا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر، واشنگٹن میں پینٹاگون اور 2001 میں پنسلوانیا کے ایک فیلڈ میں ہونے والے حملوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 9/11 کے حملے کے بعد امریکہ نے جارج ڈبلیو بش کی صدارت میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی شروعات کی۔
امریکی محکمہ دفاع نے پیر کو اعلان کیا کہ کابل سے نکلنے والا آخری امریکی فوجی میجر جنرل کرس ڈوناہو تھا۔
بائیڈن نے امریکی اہلکاروں کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ائیر لفٹ کے نفاذ کو سراہا۔ صدر نے کہا کہ وہ آج اپنے ملک سے خطاب کریں گے۔
سکریٹری برائے دفاع لائیڈ جے آسٹن III کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں نے جو کچھ کیا وہ دنیا کی کوئی دوسری فوج نہیں کر سکتی۔ یہ نہ صرف ہماری افواج کی صلاحیتوں اور ہمت کا ثبوت ہے بلکہ ہمارے تعلقات اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی صلاحیتوں کا بھی ثبوت ہے۔‘‘
Gen. McKenzie: I’m here to announce the completion of our withdrawal from Afghanistan. pic.twitter.com/l8E2Fbftky
— Department of Defense 🇺🇸 (@DeptofDefense) August 30, 2021
تاہم آسٹن نے ان 13 فوجیوں کے بارے میں دکھ کا اظہار کیا جو 26 اگست کو انخلا کے مشن کے دوران کابل ائیرپورٹ کے ایک دروازے پر داعش (خراسان) کے حملے میں مارے گئے تھے۔
امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ملک نے افغانستان سے 1،23،000 سے زائد افراد کو نکالا ہے۔ آسٹن نے کہا ’’اب اس آپریشن کا اختتام امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا بھی اشارہ ہے۔ ہم نے اس جنگ میں 2،461 فوجیوں کو کھو دیا اور ہزاروں کو زخموں کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا کہ فوجی آپریشن کے اختتام کے ساتھ ’’ایک نیا باب شروع ہو گیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اب ایک سفارتی مشن شروع ہوگا اور امریکی آپریشن کابل سے قطر منتقل کیے جائیں گے۔
امریکہ کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان کو اب ایک امتحان کا سامنا ہے۔ ’’کیا وہ اپنے ملک کو ایک محفوظ اور خوش حال مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں جہاں ان کے تمام شہریوں، مردوں اور عورتوں کو اپنی صلاحیت تک پہنچنے کا موقع ملے؟ کیا افغانستان اپنی متنوع ثقافتوں، تاریخوں اور روایات کی خوبصورتی اور طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے؟‘‘
وہیں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ افغانستان نے مکمل آزادی حاصل کر لی ہے۔ سینئر طالبان رہنما انس حقانی نے کہا کہ امریکی افواج کے اپنے ملک واپس لوٹنے کے ’’یہ تاریخی لمحات‘‘ دیکھ کر انھیں فخر محسوس ہو رہا ہے۔