یوکرین بحران: جنگ کسی کے مفاد میں نہیں، چینی صدر نے جو بائیڈن سے کہا

نئی دہلی، مارچ 19: اے ایف پی کی خبر کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے جمعہ کو اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے کہا کہ جنگ ’’کسی کے مفاد میں نہیں‘‘۔ انھوں نے یہ بیان ایک ویڈیو کال کے دوران دیا جس میں دونوں رہنماؤں نے یوکرین کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا۔

شی نے بائیڈن کو یہ بھی بتایا کہ ’’ریاست سے ریاست کے تعلقات فوجی دشمنی کے مرحلے تک نہیں جا سکتے۔‘‘

چینی وزارت خارجہ کے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’صدر شی نے نشان دہی کی کہ چین یوکرین کی صورت حال کو اس تک پہنچتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ چین امن کا حامی ہے اور جنگ کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘

شی نے یہ بھی کہا کہ چین اور امریکہ دنیا کی دو سرکردہ معیشتیں ہیں اور انھیں ’’بین الاقوامی ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے اور عالمی امن و سکون کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘

دریں اثنا بائیڈن نے ویڈیو کال کے دوران بیان کہا کہ اگر بیجنگ یوکرین پر حملے میں روس کو مادی مدد فراہم کرتا ہے تو اسے ان کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا کہ چین کو ’’خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑا ہونا چاہتا ہے اور وہ کس طرح چاہتا ہے کہ تاریخ کی کتابیں اسے اور اس کے اعمال کو دیکھیں۔‘‘

ویڈیو کال سے پہلے ریاستہائے متحدہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن نے کہا تھا کہ بائیڈن چین پر واضح کر دیں گے کہ اگر بیجنگ نے یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت کی تو واشنگٹن پابندیاں عائد کرے گا۔

گذشتہ چند ہفتوں میں امریکا اور کئی دیگر یورپی ممالک نے روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف اقدام کے طور پر روس پر کئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

لیکن بیجنگ نے ماسکو کے اس اقدام کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کے فورمز میں اس کے خلاف ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔

ساکی نے جمعرات کو کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ روس کے ساتھ چین کی صف بندی اور اس کے ممکنہ مضمرات اور نتائج کے بارے میں فکر مند ہے۔

ساکی نے کہا کہ ’’یہ صدر بائیڈن کے لیے یہ جائزہ لینے کا ایک موقع ہے کہ صدر شی کہاں کھڑے ہیں۔‘‘

دریں اثنا چین نے امریکہ اور نیٹو کے رکن ممالک اور مغربی میڈیا کو ’’انتہائی منافقانہ‘‘ قرار دیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ جب شہری ہلاکتوں اور انسانی صورت حال کی بات آتی ہے تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیا آپ [امریکہ] عراق، شام، افغانستان اور فلسطین کے لوگوں کے بارے میں یکساں طور پر فکر مند تھے؟