ملک میں بنیاد پرستی کے بڑھتے رجحان کے درمیان ’راشٹریہ دھرم‘ کا راگ

ایک طرف آل انڈیا ڈی جی پی کانفرنس میں پولیس افسران مذہبی انتہا پسندی کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ عوامی جلسے سے لوگوں سےقومی مذہب’ سناتن دھرم‘ کو قرار دیتے ہوئے  جڑنے کی اپیل کر رہے ہیں

نئی دہلی،30جنوری(دعوت ڈیسک)

ملک میں بڑھتے بنیاد پرستی کے رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔مذہبی انتہا  پسندی اور نفرت کی آندھیوں میں آئے دن اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے  ۔ہندو قوم پرستی میں اضافہ،ہجومی تشدد اور گھر واپسی جیسی مہم نے جہاں ایک طرف ملک کے  امن و امان میں خلل پیدا کیا ہے  وہیں اس کے سبب اقلیتوں میں بڑھتے بنیاد پرستی کے رجحان نے پولیس اور انتظامیہ کے لئے تشویش کے حالات پیدا کر دئے ہیں ۔رپورٹوں  سے انکشاف ہوتا ہے کہ اس انتہا پسندی کے رجحان میں کمی کے بجائے گزرتے دنوں کے ساتھ مزید اضافہ ہو رہا ہے۔اگر غور کیا جائے تو اس انتہا پسندی کے رجحان میں اضافےکا سبب ہمارے سیاست دانوں اور اعلیٰ وزارتوں پر فائز حکمراں جماعت کے رہنماؤں کی بیان بازی   بھی ہے۔در اصل وہ اقلتیوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازیوں کے ذریعہ سیاسی مفاد کو سادھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پولیس اور انتظامیہ کی تشویش کے اظہار کے باوجود مذہبی بنیاد پر اکثریتی طبقے کو اکسانے اور اشتعال انگیزبیانات مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طرف پولیس  کے اعلیٰ افسران  ملک کے وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر کے سامنے انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور مذہبی منافرت کم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں  وہیں دوسری طرف تر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ عوامی جلسے سے اعلان کر رہے ہیں کہ  سناتن دھرم ہندوستان کا ’راشٹر دھرم‘ ہے۔ انہوں نے راجستھان میں ایک عوامی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر راشٹر دھرم سے جڑیں ۔ اگر ہم  راشٹر دھرم  سے جڑتے ہیں تو ملک محفوظ  ہوتا ہے۔ انہوں نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارے مذہبی مقامات  توڑے جاتے  ہیں  تو ان کا دوبارہ تعمیر بھی ہوتا ہے ۔ایودھیا میں 500 سال بعد رام مندر بن رہا ہے۔  یہی نہیں یوگی نے مزید کہاکہ اگر کسی دور میں ہمارے مذہبی مقامات کی بے حرمتی ہوئی ہے تو ان کی بحالی کے لیے مہم چلائی جائے۔حالانکہ وزیر اعلیٰ یوگی کے اس بیان پر اپوزیشن رہنماؤں نےسوال بھی اٹھائے ہیں ۔لیکن قابل غور ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کا بیان ہے جو آئین پر حلف لے کر وزیر اعلیٰ کے  عہدے پر فائز ہے۔وزیر اعلیٰ کا بیان کھلے طور پر اکثریتی فرقہ کو اقلیتی فرقہ کے خلاف اکسانا اور اقلیتوں کے عبادت گاہوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دیتا ہے ۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ

ایک طرف وزیر اعلیٰ کا یہ حالیہ بیان ہے اور دوسری طرف مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے بڑھتے رجحان پر پولیس افسران کی تشویش ہے۔  ڈائریکٹر جنرل اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی دہلی میں منعقد  گزشتہ روز تین روزہ کانفرنس کے دوران پولیس افسران نے انتہا پسندی کے بڑھتے رجحان اور مذہبی منافرت پرشدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق  ڈی جی پی کی مذکورہ کانفرنس میں   وزیر اعظم مودی ،مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے شرکت کی۔20 جنوری کو منعقد  اس کانفرنس میں ملک کے 350 اعلیٰ افسران نے شرکت کی تھی ۔

انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کانفرنس کے دوران ایک ریسرچ  پیپر میں دائیں بازو کی تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو انتہا پسندقرار دیتے ہوئے ملک میں منافرت میں اضافہ کے لئے ان کی سر گرمیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کو قرار دیا  ہے ۔اسی طرح اس تین روزہ کانفرنس میں ریسرچ پیپر میں بابری مسجد کے انہدام ،ہندو قوم پرستی  کے رجحان میں اضافہ،ہجومی تشدد اور گھر واپسی جیسی مہم کو ملک کے اندر نوجوانوں میں انتہا پسندی کی وجہ قرار دی گئی ہے ۔اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ تمام انتہا پسندی کی سر گرمیاں در اصل اسلامی بنیاد پرستی اور پاپولر فرنٹ جیسی تنظیموں کے نظریات سے مقابلے کے تناظر میں انجام دی جا رہی ہیں۔

پولیس افسران نے اس انتہا پسندی کے رجحان کے خاتمہ کے لئے سیاست میں مسلمانوں کی زیادہ نمائندگی اور ان کے لئے ریزرویشن کا بھی مشورہ دیا ہے ۔ اور مسلم نوجوانوں کی اس بنیاد پرستی کے رجحان کے مقابلہ کے لئے اعتدال پسند مسلم رہنماؤں اور مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت پر زور دیا  ہے

مذکورہ کانفرنس میں صرف ہندو انتہاپسندی پر ہی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ ایک ریسرچ پیپر میں مسلم نوجوانوں میں مبینہ بنیاد پرستی کو قومی سلامتی کے لئے ایک بڑا چیلنج قرار دیا گیا ۔اس ریسرچ پیپر میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں متعدد بنیاد پرست تنظیمیں  سر گرم ہیں جو مسلم نوجوانوں کو بنیاد پرست بنانے جیسی سر گرمیوں میں شامل ہیں۔یہ تنظیمیں مسلم طبقے کو اکسانے اور انہیں تشدد کے راستے پر دھکیلنے کا رجحان رکھتی ہیں ۔ایک افسر نے اپنی رپورٹ میں اسلامی نقطہ نظر کو ایک ایسا نقطہ نظر  قرار دیا جو دنیا کو ’مسلمان‘اور ’دوسروں‘ میں تقسیم کرتا ہے ۔ ان اسلامی بنیاد پرست گروہوں میں  پی ایف آئی، دعوت اسلامی، توحید، کیرالہ ندوۃ المجاہدین وغیرہ  تنظیموں کونشانزد کیا گیاہے۔مزید  اپنی رپورٹ میں کہا کہ انتہائی دائیں بازو کے گروہ ملک کو اکثریت پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ان میں آنند مارگ، وی ایچ پی، بجرنگ دل، ہندو سینا، وغیرہ شامل ہیں۔   ایک اور افسر نے اسلام اور ہندو بنیاد پرست تنظیموں کو آئی ایس آئی ایس جیسی تنظیموں سے تشبیہ دی۔ ایک اورریسرچ پیپر میں بی جے پی کی نپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے واقعہ کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ "سب کو مذہبی تبصرے اور نفرت انگیز تقاریر  سے گریز کرنا چاہیے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ملک کے اندر اور بیرون ملک سے آنے والے اشتعال انگیز ویڈیوز اور پیغامات نے ادے پور میں کنہیا لال قتل کے ملزمین کی بنیاد پرستی میں اہم کردار ادا کیا”۔ رپورٹ میں لوگوں میں ’قانون کی حکمرانی‘ کے مضبوط احساس کو اجاگر کرنے اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے واقعات کو روکنے کی وکالت بھی کی گئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متعدد پولیس افسران نے اس انتہا پسندی کے رجحان کے خاتمہ کے لئے سیاست میں مسلمانوں کی زیادہ نمائندگی اور ان کے لئے ریزرویشن کا بھی مشورہ دیا ہے ۔ اور مسلم نوجوانوں کی اس بنیاد پرستی کے رجحان کے مقابلہ کے لئے اعتدال پسند مسلم رہنماؤں اور مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ منظر عام پر آنے کے بعد اس ریسرچ پیپر کو ڈی جی پی کانفرنس کی ویب سائٹ سے گزشتہ دنوں ہٹا دیا گیا  ہے۔

۔(انڈیا ٹو مارو کے ان پٹ کے ساتھ)۔