گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد تیستا سیتلواڑ کو سپریم کورٹ سے عبوری راحت ملی

نئی دہلی، جولائی 2: سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے ہفتہ کو گجرات ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگا دی جس میں تیستا سیتلواڑ کو 2002 کے گجرات فسادات سے متعلق مبینہ جعل سازی اور من گھڑت ثبوتوں کے معاملے میں باقاعدہ ضمانت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے سنیچر کو جسٹس ابھے ایس اوکا اور پرشانت کمار مشرا پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ نے سیتلواڑ کو عبوری تحفظ دینے کے بارے میں اختلاف کیا تھا، جس کے بعد یہ کیس ایک بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا گیا۔

دیر رات کی خصوصی سماعت میں جسٹس بی آر گوائی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ہفتے کے لیے روک لگا دی۔ اس نے نوٹ کیا کہ جب سپریم کورٹ نے 2 ستمبر کو کارکن کی عبوری ضمانت منظور کی تھی، تب اس نے نوٹ کیا تھا کہ وہ ضابطہ فوجداری کے تحت بطور خاتون خصوصی تحفظ کی حقدار ہے۔

جسٹس گوائی نے زبانی طور پر پوچھا کہ سیتلواڑ کو حراست میں لینے کی کیا عجلت تھی۔ انھوں نے پوچھا ’’اگر کچھ دنوں کے لیے عبوری تحفظ مل جائے تو کیا آسمان گر جائے گا؟ اس قدر خوف ناک عجلت کیوں ہے؟‘‘

تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس کیس کی خوبیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہی ہے۔

ریاست کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار اور انڈین پولیس سروس کے سابق افسر سنجیو بھٹ کے ساتھ سیتلواڑ پر ریاستی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے مقصد سے 2002 کے گجرات فسادات کے بارے میں جھوٹے ثبوت گھڑنے کا الزام ہے۔

ان فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔

ہائی کورٹ کے جسٹس نیرزار دیسائی نے سنیچر کو دعویٰ کیا کہ سیتلواڑ نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور مودی کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔

جسٹس دیسائی نے کہا کہ کارکن نے بھاری فنڈز اکٹھا کرکے اور خود کو ایک سماجی رہنما کے طور پر پیش کرکے ذاتی اور سیاسی فائدے حاصل کرنے کے ارادے سے فساد متاثرین کی مدد کی۔ عدالت نے مزید کہا کہ وہ بالآخر پلاننگ کمیشن کی رکن بن گئیں۔