تیستا سیتلواڑ کی گرفتاری: 21 ریاستوں کے معزز شہریوں اور انسانی حقوق کے گروپ نے سیتلواڑ کی رہائی کا مطالبہ کیا
نئی دہلی، جون 27: پیر کو 21 ریاستوں کے 2,231 باشندوں اور انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے 2002 کے گجرات فسادات سے متعلق مقدمات میں مبینہ جعلسازی کے الزام میں کارکن تیستا سیتلواڑ، گجرات کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار اور انڈین پولیس سروس کے سابق افسر سنجیو بھٹ کی گرفتاری کی مذمت کی۔
پولیس انسپکٹر درشن سنگھ بی براد کی احمد آباد میں درج شکایت کی بنیاد پر سیتلواڑ کو ہفتہ کی دوپہر ممبئی کے جوہو علاقے میں ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس معاملے میں سری کمار کو بھی گاندھی نگر میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اتوار کو احمد آباد کی ایک عدالت نے سیتلواڑ کو باضابطہ طور پر گرفتار کیا اور سری کمار کے ساتھ 2 جولائی تک پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
گجرات پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔
شہریوں اور انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بھی تنقید کی جس میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی اور گجرات کے دیگر سینئر افسران کے خلاف لگائے گئے ایک ’’بڑی سازش‘‘ کے الزامات کو مسترد کر دیا گیا۔ مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے ریاستی حکومت کی طرف سے دیے گئے ایک بیان کو بھی پڑھا تھا کہ کیس میں شریک درخواست گزار سیتلواڑ نے ذکیہ جعفری کے جذبات کا استحصال کیا ہے۔
ایک بیان میں 2,231 اساتذہ، صحافیوں، سماجی تنظیموں کے سربراہوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد نے کہا کہ ذکیہ جعفری کی درخواست پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ناانصافی کے احساس کو مزید گہرا کرتا ہے اور ان تمام لوگوں کے لیے گہرے دکھ اور نقصان کا لمحہ ہے جو آئین کی قدر کرتے ہیں۔
دستخط کنندگان نے کہا ’’سپریم کورٹ نے نہ صرف اس خیال کو مسترد کر دیا کہ قتل، عصمت دری اور املاک کو تباہ کرنے کے جرائم کے ارتکاب کی سازش کی گئی تھی، بلکہ اس کے بجائے مزید آگے بڑھ کر گودھرا کے واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ نفرت انگیز جرائم کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کی کوشش کرنے والوں کو نشانہ بنایا۔‘‘
بیان پر دستخط کرنے والوں میں کارکن میدھا پاٹکر، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند، اداکارہ شبانہ اعظمی، مصنفین آکار پٹیل اور شمس الاسلام، راجیہ سبھا کے رکن کمار کیتکر، بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل رامداس، موسیقار ٹی ایم کرشنا اور شاعر گوہر رضا شامل ہیں۔
دستخط کنندگان نے الزام لگایا کہ حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف ’’جھوٹے اور انتقامی کارروائی‘‘ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
دستخط کرنے والوں نے کہا ’’یہ واقعی جھوٹ کے سچ بن جانے کی ایک اورویلیائی صورت حال ہے، جب 2002 کی گجرات نسل کشی میں جو کچھ ہوا اس کی سچائی کو قائم کرنے کے لیے لڑنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ہم ان لوگوں کو خاموش کرنے اور مجرم بنانے کی اس کوشش کی مذمت کرتے ہیں جو آئینی اقدار کے لئے کھڑے ہیں اور جنھوں نے 2002 [گجرات فسادات] کے متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کے لیے بہت سی سخت مشکلات کے خلاف جدوجہد کی ہے۔‘‘
ہندوستان اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے بھی سیتلواڑ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
باڈی نے ایک بیان میں کہا ’’ہمیں تیستا سیتلواڑ کی گرفتاری پر گہری تشویش ہے کیوں کہ یہ ریاستی مشینری کے ذریعے طاقت اور قانون کے جارحانہ غلط استعمال کی عکاسی کرتی ہے۔ واقعات کے اس موڑ نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے محافظوں کے لیے حکومت کے وعدوں پر بھی سوالات کھڑے کیے ہیں۔‘‘
باڈی نے مزید کہا کہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کے محافظوں کو ’’منظم طریقے سے نشانہ بنانا‘‘ بند کرنا چاہیے۔