ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دینے کا معاملہ، نو ریاستوں کی جانب سے کوئی جواب داخل نہ کرنے پرسپریم کورٹ برہم

عدالت عظمیٰ  کا سخت موقف ،کہااگر متعلقہ ریاستیں جواب نہیں داخل کرتی ہیں   تو ہم سمجھیں گے کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے،اگلی سماعت 21 مارچ کو

نئی دہلی، 17 جنوری :۔

ملک میں بی جے پی حکومت کی آمد کے بعد اکثریتی طبقہ اقلیتوں کو ملنے والی مراعات کو لے کر ہمیشہ فکر مند رہتا ہے   ،اس طبقے کی کوشش رہی ہے کہ جن ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں سے مسلمانوں کو اقلیت کے زمرے سے خارج کیا جائے  تاکہ اقلیتوں کو ملنے والی مراعات سے انہیں محروم کیا جاسکے۔اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے ملک کی نو ریاستوں میں جہاں ہندوؤں کی تعداد کم ہے، وہاں ہندووں کو اقلیتی درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے ۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق سپریم کورٹ ہندووں کو اقلیتی درجہ دینے کے مطالبے پر چھ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے جواب طلب کیا تھا لیکن اب تک ان ریاستوں نے کوئی جواب داخل نہیں کیا ہے جس پر آج سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ جسٹس سنجے کشن کول کی سربراہی والی بنچ نے ان ریاستوں کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ریاستیں جواب نہیں دیتی ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔مذکورہ معاملے میں عدالت کو بتایا گیا کہ اب تک 24 ریاستوں نے اس معاملے میں اپنا جواب داخل کیا ہے۔ عدالت اگلی سماعت 21 مارچ کو کرے گی۔

گزشتہ سماعت کے دوران8 اگست 2022 کو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ایک عرضی گزار دیوکی نندن ٹھاکر سے کہا تھا کہ وہ عدالت کے سامنے کوئی ٹھوس مثال رکھیں، جس میں کسی خاص ریاست میں کم آبادی ہونے کے باوجود ہندوؤں کو اقلیتی حیثیت کا واجب درجہ مانگنے پر نہ ملا ہو۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 9 ریاستوں میں ہندو اقلیت بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے نہیں کھول سکتے جبکہ آئین اقلیتوں کو یہ حق دیتا ہے

عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم درخواست گزار کی طرف سے ٹھوس مثال پیش کیے جانے کی صورت میں اس پر غور کر سکتے ہیں، لیکن ہم ہندوؤں کو ان کی کم آبادی والی ریاستوں میں اقلیت کا درجہ نہیں دے سکتے ۔ بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے بھی اس معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔ عدالت ستمبر کے پہلے ہفتے میں دونوں درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرے گی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 9 ریاستوں میں ہندو اقلیت بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے نہیں کھول سکتے جبکہ آئین اقلیتوں کو یہ حق دیتا ہے۔

درخواست میں جن 9 ریاستوں کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں ہندؤں کی تعداد کم ہے ۔ان میں لداخ، میزورم، لکش دیپ، کشمیر، ناگالینڈ، میگھالیہ، اروناچل پردیش، پنجاب اور منی پور شامل ہیں۔ درخواست میں کہاگیا ہے کہ لداخ میں 1%، میزورم میں 2.75%، لکش دیپ میں 2.77%، کشمیر میں 4%، ناگالینڈ میں 8.74%، میگھالیہ میں 11.52%، اروناچل میں 29%، پنجاب میں 38.49% اور منی پور میں 41.29% ہندوؤں کی آبادی ہے۔