والدین بھی بین المذاہب شادی پر اعتراض نہیں کر سکتے: الہ آباد ہائی کورٹ

لکھنؤ (اترپردیش)، ستمبر 18: گورکھپور کے ایک بین المذاہب جوڑے کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو مشاہدہ کیا کہ بالغوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مذہب سے قطع نظر بھی اپنی زندگی کے ساتھی کا انتخاب کریں۔

عدالت نے واضح کیا کہ ان کے والدین بھی ان کے ان تعلقات پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

عدالت شفا حسن نامی خاتون اور اس کے ہندو شوہر کی مشترکہ طور پر دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ جسٹس منوج کمار گپتا اور جسٹس دیپک ورما پر مشتمل ڈویژن بینچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ تنازعہ سے بالاتر ہے کہ دو بالغوں کو اپنے ازدواجی ساتھی کے انتخاب کا حق حاصل ہے چاہے وہ کسی بھی عقیدے اور مذہب پر یقین رکھتے ہوں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا ’’چوں کہ موجودہ پٹیشن دو افراد کی مشترکہ درخواست ہے جو ایک دوسرے سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بالغ ہیں، اس لیے ہماری رائے میں کوئی بھی، یہاں تک کہ ان کے والدین بھی ان کے تعلقات پر اعتراض نہیں کر سکتے۔‘‘

مشترکہ درخواست میں درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے اکٹھے رہتے ہیں۔ تاہم ان کے رشتے کو ان کے خاندان کے کچھ افراد قبول نہیں کر رہے تھے اور وہ ان کی پرامن زندگی کو پریشان کر رہے تھے۔

مزید یہ کہ عدالت نے تمام فریقین کو سننے کے بعد جوڑے کو تحفظ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والدین کو بھی ان کے تعلقات پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔

عدالت نے گورکھپور پولیس حکام کو یہ بھی ہدایت دی کہ درخواست گزاروں کے لیے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ لڑکی کے والد یا کسی دوسرے شخص کے ذریعے ان کو ہراساں نہ کیا جائے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار شفا حسن نے عدالت کے روبرو کہا کہ اس نے مسلم مذہب سے ہندو مذہب میں تبدیلی کی درخواست بھی دائر کی ہے۔ عدالت میں اپنے بیان کے مطابق گورکھپور کے ضلعی مجسٹریٹ (ڈی ایم) نے مذکورہ درخواست پر متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رپورٹ طلب کی تھی۔ متعلقہ پولیس حکام کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق لڑکے کے والد شادی کے لیے راضی نہیں تھے، لیکن اس کی ماں اس کے لیے تیار تھی۔

تاہم درخواست گزار شفا حسن کے والدین اس شادی کی مخالفت کر رہے تھے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر جوڑے نے ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

عدالت نے اس کا نوٹس لیا کہ دونوں درخواست گزار بڑے ہیں، جن کی عمریں بالترتیب 19 اور 24 سال ہے۔ لہذا عدالت نے انھیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہوئے واضح کیا کہ درخواست گزاروں کی زندگی کے تحفظ کے حوالے سے اس مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے نتائج فطرت کے مطابق ہیں۔