عمران خان کے انتخاب لڑنے پر کوئی پابندی نہیں: اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو 30 اکتوبر کو ہونے والے این اے 45-(قرم-1) ضمنی انتخاب لڑنے میں کسی بھی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا
نئی دہلی: اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان کو (پاکستان الیکشن کمیشن) کے ذریعے ان کے خلاف توشہ خانہ معاملے کے فیصلے میں انہیں مسقبل میں انتخاب لڑنے سے نہیں روکا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کو ”30اکتوبر کو ہونےوالے این اے 45-(قرم-1)ضمنی انتخاب لڑنے کے لئے ”کسی بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔“
مسٹر خان کی درخواست پر سماعت کے درمیان یہ فیصلہ کیا گیا۔درخواست میں ملک میں انتخاب کرانے والا ادارہ پاکستان الیکشن کمیشن(ای سی پی)کے ذریعے انھیں نا اہل اعلان کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم پر الزام تھا کہ جب وہ وزیر اعظم تھے، تو انہیں توشہ خانہ کی قیمتی تحائف کی فروخت اور اپنے اثاثے جات چھپانے کا ملزم پایا گیا تھا جس کی رو سے ان پر پانچ سال کے لئے انتخاب لڑنے پر روک لگا دی گئی تھی۔
سماعت کے آغازپر عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نےعدالت سے استدعا کی کہ رجسٹرار کے انتظامی اعتراضات کے باوجود درخواست کی سماعت شروع کی جائے۔جب جج اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ جلدی کیا ہے؟ تو وکیل نے جواب دیا کہ ان کے موکل کو قرم میں ان کے ضمنی الیکشن سے قبل نا اہل قرار دیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا،”عمران خان اس انتخاب کے لئے نا اہل نہیں ہیں۔ سبھی کے لئے ایک ہی معیار ہونا چاہئے۔ اس معاملے میں جلد بازی کرنے کی کوئی ضروت نہیں ہے۔“
جج نے کہا کہ اعتراضات دور ہونے کے بعد عدالت درخواست پر سماعت کرے گی۔ ایڈووکیٹ ظفر نے عدالت سے فیصلہ روکنے کی گزارش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ای سی پی کا تفصیلی فیصلہ ابھی دستیاب نہیں ہے۔
انھوں نے پوچھا، ”عدالت کو کس فیصلہ پر روک لگانی چاہئے؟“مسٹر خان اسی سیٹ پر نہیں لوٹنا چاہتے جس سے انھیں نا اہل اعلان کیا گیا تھا، ہے نا؟“
ایڈووکیٹ ظفر نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکم پر روک لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے صدر ہونے والے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ حالانکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مسٹر عمران خان کو اس سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ جب وکیل نے دلائل دئے کہ عوام کو معاملہ سمجھ میں نہیں آئے گا تو چیف جسٹس نے جواب دیا کہ عوام کو قائل کرنا عدالت کا کام نہیں ہے۔
جج نے ریماکس دئے۔”یہ پہلے نہیں ہوا ہے۔ عدالت ایسی کوئی مثال نہیں دے سکتی،“
ایڈووکیٹ ظفر نے تب کہا کہ ای سی پی کا فیصلہ بھی بے مثال ہے۔ آئی ایچ سی کے چیف جسٹس نے کہا کہ بعد میں تفصیلی فیصلہ جاری کرنا معمول کی بات ہے۔
موصوف جج نے کہا کہ عدالت کو تین دن کے اندرفیصلے کی کاپی جاری کرنے کی امید ہے، اگر ایسا نہیں ہوا،تو عدالت معاملے کو دیکھے گی۔