آپریشن بلیو اسٹارکی برسی اور خالصتان کی تاریخ   

امسال بھی6 جون کو آپریشن بلیوا سٹار کی 41 ویں برسی کے موقع پر سری اکال تخت صاحب کے قائم مقام جتھیدار سکھ برادری کے لیے روایتی طور پر سری اکال تخت صاحب کے فصیل سے اپنا پیغام جاری نہیں کرسکے

ڈاکٹر سلیم خان

6؍ جون 2025 کو گولڈن ٹیمپل پر آپریشن بلیو سٹار کو 41 سال مکمل ہو گئے ۔ سکھ برادری کے لیے یہ تاریخ مسلمانوں کے نزدیک  6 دسمبر1992 کی سی اہمیت کی حامل  ہے ۔ بابری مسجد اور دربار سنگھ  صاحب  دونوں ہندو اکثریت کی ناز برداری اور ووٹ کی سیاست کا شکار ہوئےاس لیے  ان کا گہرااور تاریخی زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکےگا۔ سکھ برادری ہر سال  اس دن جاں بحق  ہونے والوں کی یاد تازہ کرکے انہیں  خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔جون 1984 میں خالصتان تحریک  کو کچلنے کی خاطر آپریشن بلیو اسٹار نامی فوجی کارروائی کی گئی تھی ۔ اس آپریشن میں ہزاروں سکھ زائرین سمیت  سنت جرنیل سنگھ بھنڈران والے، جنرل شبھگ سنگھ، امریک سنگھ، مہنگا سنگھ ببر اور 13 سالہ سربجیت سنگھ دادھر بھی ہلاک ہو گیاتھا۔ سکھ تنظیمیں تو اس آپریشن میں 5000 سے زائد بے قصورلوگوں کے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا دعویٰ کرتی ہیں مگر سرکاری اعدادوشمار اس سےدس گنا کم ہیں ۔ عام رائے ایک ہزار کے آس پاس ہےلیکن اس سے قطع نظر  سکھوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت پر اس کے   گہرے اثرات ہنوز موجود ہیں۔

امسال  بھی  6 جون  کو آپریشن بلیوا سٹار کی 41 ویں برسی کے موقع پر لوگوں میں اتنا زیادہ جوش تھا کہ سری اکال تخت صاحب کے قائم مقام جتھیدار کلدیپ سنگھ گڑگج  سکھ برادری کے لیے روایتی طور پر سری اکال تخت صاحب کے فصیل سے اپنا  پیغام جاری نہیں کرسکے۔ انہوں نے ارداس (دعا) کے دوران ہی اور سکھ برادری سے پنجاب کو میدان جنگ نہ بننے دینے کی اپیل کرنے پر اکتفاء کرلیا  ۔ موصوف  نے جیل میں  قید والونت سنگھ راجوانہ سمیت دیگر سکھوں  کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی فوج نے ہمارے گرودواروں پر حملہ کیا تھا۔ اس دوران کئی سکھ مارے گئے تھے جن کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آپریشن بلیو اسٹار کے ردعمل میں  31  اکتوبر 1984 کو، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ نے قتل کر دیا تھا۔پچھلے سال منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں بے انت سنگھ کے بیٹے سربجیت سنگھ کی کامیابی کس بات کی علامت ہے۔ ان کے علاوہ حراست کے باوجود  حریت پسند سکھ مبلغ امرت پال سنگھ، کا  18ویں لوک سبھا کے رکن منتخب ہوجانا عوامی جذبات کا عکاس ہے۔

سربجیت سنگھ خالصہ نے پنجاب کی فرید کوٹ کی  سیٹ جیتی جبکہ ، آسام کی ڈبرو گڑھ کی  جیل میں بند امرت پال نے کھڈور صاحب سے کامیابی حاصل کی۔ سربجیت نے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے کرم جیت سنگھ انمول کو 70,053 ووٹوں کے فرق سے شکست دی، امرت پال نے کانگریس پارٹی کے کلدیپ سنگھ زیرا سے  197,120  زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی تو کہیں مقابلے پر ہی نہیں تھی۔ ’وارث پنجاب دے‘ تنظیم کے سربراہ  اور اب رکن پارلیمان امرت پال سنگھ کھلے عام اعلان کرتے ہیں کہ ’میں خود کو انڈین نہیں سمجھتا۔ میرے پاس جو پاسپورٹ ہے وہ مجھے ہندوستانی نہیں بناتا۔ یہ صرف سفر کرنے میں مدد کرنے والی ایک دستاویز ہے۔‘ پچھلے سال  پنجاب حکومت کے امور داخلہ اور محکمہ انصاف نے لوک سبھا انتخابات کے نتائج  سے ایک دن قبل  یعنی 3 جون کو امرت پال سنگھ پر   این ایس اے میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی ۔وہ   مارچ 2023 سے این ایس اے کے تحت آسام کی ڈبرو گڑھ جیل میں بندتھے۔ اس کالے  قانون کے تحت  چونکہ  کسی بھی فرد کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ  بتا کر صرف  12 ماہ تک بغیر کسی الزام  کے حراست میں رکھا جا سکتا ہےاس لیے مذکورہ  توسیع کرنی پڑی ۔  بی جے پی والے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے انتخابی کامیابی کو جواز بناتے ہیں مگر جب امرت پال سنگھ یا انجنیر رشید کی بات آتی ہے تو وہ دلیل ہوا ہوجاتی ہے۔

آئین کے مطابق چونکہ  6 ماہ کے اندر ہر رکن پارلیمان  کی  حلف برداری لازمی ہے اس کے لیے ان دونوں کو  ایک دن کی پیرول  رہا کرکے یہ رسم ادا کی گئی اور پھر جیل بھیج دیا گیا۔ ویسے انتخابی نتائج کے بعد اگر حکومت امرت پال سنگھ کے اوپر سے این ایس اے  ہٹا بھی لیتی تو انہیں   ضلع امرتسر کے اجنالہ تھانے میں غیر قانونی ہتھیاروں سے حملہ سمیت مختلف تھانوں میں تقریباً 12 مقدمات کی پیروی کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتےبلکہ اب تو  آسام میں بھی ان کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا ہے۔  اس کے باوجود جمہوریت کا بھرم رکھنے  کے لیے کچھ نمائشی  رویات کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے ۔حلف برداری کے لیے گزشتہ سال جولائی میں  امرت پال کو آسام کی ڈبرو گڑھ جیل سے نکال کر ایئربیس لایا گیا۔ وہاں سے امرت پال کو فوجی طیارے میں دہلی لاکر ایئرپورٹ سے پارلیمنٹ ہاؤس میں  حلف  برداری کرائی گئی نیز خاندان والوں  سے ملاقات بھی کرائی  گئی۔

سوال یہ ہے کہ  اس رسم کی ادائیگی سےان لاکھوں  لوگوں   کواپنا حق مل گیاجنھوں نے نے امرت پال سنگھ کو منتخب کرکے اپنی آواز اٹھانے کی خاطر ایوان پارلیمان میں بھیجا ہے ؟ کیا یہ سب کرنے سے  جس مقصد کی خاطر    امرت پال سنگھ کو  کامیاب کیا گیا اس کی جانب کوئی پیش رفت ہوئی؟؟ اگر نہیں تو کا کیا فائدہ؟ یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ امرت پال سنگھ کو  حلف لینے کے لیے تقریباً ایک سال دو ماہ اور 12 دن بعد ڈبرو گڑھ جیل سے باہرتو آئے  مگر  ایک ہی  دن بعد واپس جیل بھیج دیئے گئے ۔  ایک ایسا  شخص حراست میں ہے  جس  کو جیل سے باہر انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن پھر بھی اسے  4 لاکھ سے زیادہ ووٹ مل گئے ۔ اس کے مقابلے کھڈور صاحب لوک سبھا سیٹ پر کانگریس کے کلبیر سنگھ زیرا صرف  2,07,310  ووٹ اورعام آدمی پارٹی کے  بھولرمحض  1,94,836 ووٹ حاصل کرکے آزاد گھوم رہے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر امرت پال بی جے پی کا امیدوار ہوتاتو کیا اس  انتخابی کامیابی کے باوجود جیل کے اندر ہوتا؟ بلکہ یہ سوال ہونا چاہیے کہ    کیا اس پر این ایس اے  لگتا اور لگ بھی جاتا تو اس میں مزید ایک سال کی توسیع ہوتی؟مذکورہ بالا سارے سوالات کے پیچھے خالصتان کا مطالبہ کا رفرما ہے۔ 1940 میں یہ نام پہلی بار سامنے آیا تھا۔ ڈاکٹر ویر سنگھ بھٹی نے مسلم لیگ کے لاہور مینی فیسٹو کے جواب میں جو پمفلٹ تیار کیا اس  میں  اس کاذکرتو ملتاہے لیکن  وہ کسی کی توجہ کا مرکز نہیں بنا اوربات آئی گئی ہوگئی۔  تقسیم ہند نے بنگال اور پنجاب کو بھی منقسم کردیا اس کے باوجود ہندوستان   میں شامل مشرقی  پنجاب  ایک وسیع و عریض صوبہ تھا ۔ 1966 میں لسانی بنیادوں پر پنجاب  کی تنظیم نو سے قبل  پہلی بار اکالی رہنماؤں نے سکھوں کی خودمختاری کا مسئلہ اٹھایا جو  70 کی دہائی کے اوائل میں خالصتان کے مطالبے پر منتج ہوگیا۔  چرن سنگھ پنچی اور ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے پہلی بار خالصتان کا مطالبہ کیا مگر انہیں اس کی راہ میں حائل مشکلات کا اندازہ تھا ۔

ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے اسی وجہ سے  70 کی دہائی میں برطانیہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز  بنایا اور آگے چل کر  امریکہ اور پاکستان بھی گئے۔ آج بھی حامیان خالصتان امریکہ اور کینیڈا سے اپنی تحریک چلا رہے ہیں یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے جی ۷ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے خلاف  بھی احتجاج  درج کروا رہے ہیں ۔ اس مخالفت کو سمجھنے کے لیے خالصتان  تحریک کے نشیب و فراز کو جاننا ضروری ہے۔ خالصتانی تحریک کی فکری بنیاد  1973 کی آنند پور صاحب  قرارداد کے اندر رچی بسی ہے کیونکہ اس میں سکھوں کے سیاسی ہدف کو نہایت واضح انداز میں بیان کیا گیا تھا۔قرار داد کے یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں کہ   ’ہمارے پنتھ (سکھ مت) کا سیاسی ہدف بلاشبہ سکھ تاریخ کے صفحات، خالصہ پنتھ کے دل اور دسویں گرو کے احکام میں موجود ہے۔ شرومنی اکالی دل کی بنیادی پالیسی ،جیو پولیٹیکل ماحول اور ایک سیاسی نظام کی تشکیل کے ذریعے خالصہ کی بالادستی قائم کرنا ہے۔‘

ا ٓنند پورصاحب قرار داد  سے پیدا ہونے والی ممکنہ غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ وضاحت بھی کی گئی کہ اکالی دل ہندوستان کے آئین اور ہندوستان کے سیاسی ڈھانچے کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ  قرارداد الگ ملک کا مطالبہ نہیں کرتی تاہم اس کا مقصد سکھوں کے لیے ہندوستان کے اندر ایک خود مختار ریاست بنانا ہے۔  1977 میں، اکالی دل نے ایک پالیسی کے طور پر عام اجلاس میں یہ  قرارداد  منظور کی۔اس وقت پنجاب میں  اکالی دل کی حکومت تھی اور غالباً اپنے صوبائی اقتدار کو بچانے کی خاطر اگلے ہی سال یعنی  اکتوبر 1978 میں، لدھیانہ اجلاس  کے اندر اکالی دل  اس تجویز پر پیچھے ہٹ گیا۔ ایسا کرنے کے لیےشرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر گروچرن سنگھ ٹوہرا نے خود مختاری کے تعلق  سے ایک نئی قرارداد نمبر ایک پیش کی  جسے آنند پور صاحب کے 1978 ورژن کا نام دیا گیا ۔اس میں کہا گیا کہ ’شرومنی اکالی دل محسوس کرتا ہے کہ ہندوستان مختلف زبانوں، مذاہب اور ثقافتوں کی ایک وفاقی اور جغرافیائی اکائی ہے۔ جمہوری روایات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ پہلے سے طے شدہ اصولوں اور مقاصد کے مطابق مرکز اور ریاستوں کے تعلقات اور اختیار کو از سر نو متعین کرکے آئینی ڈھانچے کو ایک وفاقی شکل دینا اور اقتصادی ترقی کی راہ کو آسان بنانا ہے۔‘

اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے مذکورہ بالا قرار داد  کی حمایت کرکے خود مختاری کا باب بھی بند کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیابی نہیں ملی ۔ 1978 میں چندی گڑھ کے کچھ نوجوان سکھوں نے خالصتان کے مطالبہ کی خاطر دل خالصہ تشکیل دے دی جو آگے چل کر ایک مسلح  جدوجہد میں بدل گیا ۔ سکھوں کی اس  تحریک کا پہلا مرحلہ گولڈن ٹیمپل کمپلیکس پر 1984 میں آپریشن بلیو سٹار کے بعد ا ختتام پذیر ہو گیا۔ اس

پنجاب کے اندرفی الحال  خالصتان تحریک کو  زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے لیکن  امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سےیہ مسئلہ   اٹھایا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں رہنے والے سکھوں کی بہت سی تنظیمیں یہ معاملہ  مسلسل اٹھا تی رہتی ہیں، مگر ان میں امریکہ کی’ سکھس فار جسٹس‘  کافی مشہور ہے۔ اس تنظیم  کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے۔اس مقصد  کےحصول کی خاطر یہ  گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے

وقت مسلح جدوجہد کے بیشتر عسکریت پسندوں نےسنت  جرنیل سنگھ بھنڈران والے کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران جرنیل سنگھ بھنڈران والے مارے گئے تھے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سنت بھنڈارن والے کو بھی اسامہ بن لادن کی مانند خونخوار بناکر پیش کیا گیا حالانکہ انھوں نے خالصتان یا علیحدہ سکھ قوم کے مطالبے کے بارے میں کبھی واضح طور پر بات نہیں کی تھی لیکن یہ ضرور  کہا تھا کہ اگر سری دربار صاحب پر فوجی حملہ ہوتا ہے تو یہ خالصتان کی بنیاد رکھے گا۔  یعنی وہ آپریشن بلیواسٹار کرنے کے مضر انجام سے آگاہ کرکے اس سے روک رہے تھے۔وہ تو صرف  اکالی دل کی ورکنگ کمیٹی کے ذریعہ  منظور کردہ 1973 کی سری آنند پور صاحب قرارداد کے نفاذ پر اصرار کرتے تھے  ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ ناقدین آپریشن بلیو اسٹار پر سیاسی مفادپرستی  کا الزام بھی لگاتے ہیں۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا  1994 میں سمرن جیت سنگھ مان نے  اکالی دل (امرتسر) قائم کرکے امرتسر اعلامیہ  جاری کیا جس پر یکم مئی( 1994) کو سری اکال تخت صاحب کی سرپرستی میں دستخط کیے گئے۔   اس دستاویز میں اعلان کیا گیا کہ  ’شرومنی اکالی دل کا ماننا ہے کہ انڈیا مختلف ثقافتوں کا ایک برصغیر ہے۔ ہر ثقافت کا اپنا ورثہ اور مرکزی دھارے ہیں۔‘ ساتھ  ہی اس بات پر زور دیا گیا کہ ’برصغیر کو ایک وفاقی ڈھانچے کے تحت دوبارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ثقافت پھلے پھولے اور دنیا کے باغ کو ایک الگ خوشبو سے معطر کرے۔‘ امرتسر اعلامیہ میں  خبردار کیا گیا کہ ’اگر اس طرح کی تنظیم نو حکومت ہند کو قبول نہیں ہے تو پھر شرومنی اکالی دل کے پاس خالصتان کا مطالبہ کرکے اس کی خاطر  جدوجہد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘ اس دستاویز پر کیپٹن امریندر سنگھ، جگ دیو سنگھ تلونڈی، سمرن جیت سنگھ مان، کرنل جسمیر سنگھ بالا، بھائی منجیت سنگھ اور سرجیت سنگھ برنالہ نے دستخط کیے تھے۔  کیپٹن امریندر سنگھ آگے چل کر کانگریس کے وزیر اعلیٰ بنے اور فی الحال بی جے پی کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں  ۔

پنجاب کے اندرفی الحال  خالصتان تحریک کو  زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے لیکن  امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سےیہ مسئلہ   اٹھایا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں رہنے والے سکھوں کی بہت سی تنظیمیں یہ معاملہ  مسلسل اٹھا تی رہتی ہیں، مگر ان میں امریکہ کی’ سکھس فار جسٹس‘  کافی مشہور ہے۔ اس تنظیم  کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے۔اس مقصد  کےحصول کی خاطر یہ  گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس تنظیم  کا قیام سال 2007 میں امریکہ میں عمل میں آیا۔ اس گروپ کا مرکزی چہرہ گروپتونت سنگھ پنوں ہے، جو پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے لا گریجویٹ ہے۔ وہ امریکہ میں قانون کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ حکومت  ہند نے 10 جولائی 2019 کو اس پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس تنظیم کا علیحدگی پسند ایجنڈا ہے۔اس کے ایک سال بعد 2020 میں خالصتانی گروپوں سے وابستہ نو افراد کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد  تقریباً 40 خالصتان نواز ویب سائٹس بند کر دیاگیا۔

گروپتونت سنگھ پنوں نے خالصتان کی حمایت میں ’ریفرنڈم 2020‘ کرانے کی مہم شروع کرکےکینیڈا اور دیگر کئی حصوں میں رائے شماری کروائی لیکن اسے بین الاقوامی سیاست میں کوئی خاص  اہمیت نہیں ملی لیکن اسی سال امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کمپلیکس کے اندر واقع اکال تخت کے سربراہ  نےآپریشن بلیو اسٹار کی برسی کے موقع پر اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے اعلان کردیا  کہ خالصتان کا مطالبہ جائز ہے۔صحافیوں سے بات چیت کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’سکھوں کو وہ جدوجہد یاد ہے، دنیا میں کوئی سکھ ایسا نہیں ہے جو خالصتان نہ چاہتا ہو۔‘ پچھلے سال گروپتونت سنگھ نے امریکہ میں حکومتِ ہندپر جان لیوا حملے کی سازش رچنے کا الزام بھی  لگادیا اور اس کی سماعت جاری ہے۔ ہر سال کی طرح اس برس بھی  آپریشن بلیو اسٹار کی برسی پر خالصتان کا مطالبہ بہت  شدت سے  اٹھایا  گیا۔ ذرائع ابلاغ میں اس کی خبریں بھی شائع ہوئیں مگر مودی سرکار گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر خاموش تماشائی بنی رہی۔  ایسا رویہ اگر کوئی دوسری حکومت اختیار کرتی تو زعفرانی آسمان سر پر اٹھالیتے مگر یہاں تو اپنے ہونٹ اور دانت بھی اپنے ہی ہیں اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں تو کریں کیا اور بولیں تو بولیں کیا؟