کرناٹک میں مسلمانوں کا سیاسی زوال،ووٹ شیئر زیادہ مگر سیاسی نمائندگی میں مسلسل کمی

65 اسمبلی حلقوں میں 20 فیصد سے زیادہ ہونے کے باوجود کانگریس اور جے ڈی ایس نے 20 سے کم مسلمانوں کو میدان میں اتارا ہے

نئی دہلی،29اپریل :۔
کرناٹک میں آئندہ 10 مئی کو الیکشن ہونے والے ہیں ،تمام پارٹیاں زور و شور کے ساتھ رائے دہندگان کو لبھانے میں مصروف ہیں۔اس دوران فرقہ وارانہ اور متعصبانہ سیاست کا بازار بھی گرم ہے خاص طور پر مسلمانوں کو سیاسی طور پر کنارے لگانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ پارٹیوں کی جانب سے جاری کئے گئے امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے بخوبی اس کااندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔بی جے پی تو کھلے طور پر مسلمانوں کا ایک بھی ووٹ نہیں چاہئے کا بیان جاری کر کے ہندو رائے دہندگان کو اپنے پالے میں لانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سیکولر پارٹی ہونے کی دعویدار کانگریس اور جے ڈی ایس نے بھی مسلمانوں کو سیاسی طور پر حاشیئے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ۔
کرناٹک میں مسلمانوں کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ کرناٹک میں مسلمانوں نے دیگر پسماندہ ذات (او بی سی) زمرے کے تحت نہ صرف 4 فیصد ریزرویشن کھویا ہے، بلکہ ان کی سیاسی نمائندگی بھی زوال پذیر  ہے ۔انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق 65 اسمبلی حلقوں میں 20 فیصد سے زیادہ ہونے کے باوجود، کانگریس اور جنتا دل (سیکولر) کی طرف سے ٹکٹ دیئے گئے مسلمانوں کی تعداد ریاست میں ان کی آبادی کے لحاظ سے انتہائی غیر متناسب ہے۔ اس پر مزید کسی بھی پارٹی کی طرف سے کسی بھی مسلم رہنما کو انتخابی مہم کے بڑے چہرے کے طور پر پیش بھی نہیں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ کرناٹک میں 10 مئی کو انتخابات ہوں گے اور 13 مئی کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق مسلمان کرناٹک میں 13فیصد (12.92 ) آبادی کے ساتھ سب سے بڑی برادریوں میں سے ایک ہیں۔ میڈیا میں لیک ہونے والی خبروں میں حال ہی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سدار میا کی قیادت والی کانگریس حکومت کے دور میں ہونے والی مردم شماری میں وہ لنگایت اور ووکلیگاوں سے کہیں آگے تھے ۔ لنگایت اور ووکلیگا دو سماجی طبقے ہیں جن کا کرناٹک کی سیاست میں بڑا اثر و رسوخ ہے اور ریاست میں اقتدار کے حصول میں دونوں طبقات کے رائے دہندگان فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ریاست میں ایس سی اور ایس ٹی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا سب سے بڑا ووٹ شیئر ہے۔
رپورٹ کے مطابق مسلمان کرناٹک کے تقریباً تمام اضلاع میں موجودہیں۔ ان میں خاص طور پر کچھ اضلاع میں مضبوط موجودگی ہے۔ان میںشمالی کرناٹک (خاص طور پر اس علاقے میں جہاں پہلے پرنسلی اسٹیٹ آف حیدرآباد کی حکومت تھی) جیسے گلبرگہ، بیدر، بیجاپور، رائچور اور دھارواڑ۔کیرالہ سے متصل اضلاع اوربنگلور، میسور اور منگلورو جیسے بڑے شہروں میں۔


خاص طور پر ساحلی کرناٹک میں مسلمان آبادی کا 24% ہیں، جو ریاست میں ان کے مجموعی حصہ کا دوگنا ہے۔وہ بیری برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ تجارت اور کاروبار کے میدان میں معروف ہیں۔ خاص طور پر خلیج میں بڑے پیمانے پر ان کی موجودگی ہے۔ 70 کی دہائی سے خطے میں مالز،اسپتال، تعمیرات اور تعلیمی اداروں کے شعبوں میں انکا دبدبہ رہا ہے ۔دوسری طرف وسطی کرناٹک میں مسلمانوں کا تناسب کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق کرناٹک کی سبکدوش ہونے والی مقننہ میں مسلم کمیونٹی کے سات ایم ایل اے ہیں اور سبھی کانگریس پارٹی سے ہیں۔ یہ گزشتہ دہائی میں مسلمانوں کی سب سے کم نمائندگی ہے۔ 2008 میں ریاست میں نو مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔2013 میں، 11 مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی، نو کانگریس سے اور تین جے ڈی (ایس) کے تھے۔ سب سے زیادہ مسلم نمائندگی (16 ایم ایل اے) 1978 میں تھی اور سب سے کم (2) 1983 میں تھی۔
مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد کے بعد کانگریس پارٹی کی طرف سے بھی مسلمانوں کو ان کی تعداد کے تناسب سے آئندہ اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔ کانگریس نے صرف 15 مسلمانوں کو میدان میں اتارا ہے۔ جے ڈی ایس نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وہ کتنے مسلمانوں کو میدان میں اتارے گی، لیکن پارٹی کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے اچھی امید نہیں رکھی جا سکتی ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں بی جے پی اور ہندوتو طاقتوں کا پولرائزیشن اس کی بنیادی وجہ ہے۔ حجاب کے بحران سے شروع ہو کر، مسلم تاجروں کے بائیکاٹ سے لے کر اذان تک، مسلمانوں کو بی جے پی نے نشانہ بنایا ہے۔


مسلمان، مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم میں نظر انداز کیے جانے پر اپنی مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ریاست کرناٹک کی ایک سرکردہ مسلم تنظیم سنی علماء بورڈ نے اسے کھلم کھلا غداری قرار دیا ہے۔ مسلم رہنماوں نے محسوس کیا کہ کرناٹک کی سیکولر قیادت نے انہیں ‘دھوکہ’ دیا ہے۔ کانگریس انتخابات سے پہلے مسلم لیڈروں سے وعدے کرتی ہے لیکن انہیں پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کم از کم 25-30 ٹکٹ مسلم امیدواروں کو دے۔ کرناٹک سنی علماء بورڈ کے رکن محمد قاری ذوالفقار نوری نے بتایا کہ پارٹی کو ایک مسلم امیدوار کو نائب وزیر اعلیٰ بھی بنانا چاہیے۔مسلم رہنما اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ ”سیکولر“ پارٹیوں – کانگریس اور جے ڈی ایس میں سے کسی نے بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا جب حکمراں بی جے پی حکومت نے کرناٹک میں مسلمانوں کا چار فیصد ریزر ویشن کوٹہ کو ختم کر دیا ۔
میسور یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر مظفر اسدی نے بتایا کہ سیاسی جماعتیں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارنے سے کیوں ہچکچا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہسیاسی جماعتیں اکثر یہ مانتی ہیں کہ مسلم امیدوار ووٹ حاصل نہیں کرتے۔ رائے دہندگان مسلم امیدواروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے ان کے جیتنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں،“
ماضی قریب میں کرناٹک میں بڑے پیمانے پر اپیل کرنے والے کچھ مسلم لیڈروں میں عزیزسیٹھ، عبدالنذیر صاحب، سی ایم ابراہیم، سی کے جعفر شریف، اور کسی حد تک قمر الاسلام تھے۔ عبدالنذیر، شریف اور اسلام کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کے ساتھ ہی ان کی سیاسی میراث بھی دفن ہو چکی ہے۔ ابراہیم ایک زمانے میں نہ صرف کرناٹک کی سیاست میں ایک بڑا نام تھا، بلکہ پورے جنوبی ہند میں ان کی ایک اہمیت تھی۔
بنگلور میں مقیم مسلم لائبریری کے صدر ایوب احمد خان نے ٹائمز آف انڈیا سے گفتگو کے دورا ن کہا کہ ایک وقت تھا جب کرناٹک کی سیاست میں مسلم رہنماوں کا دبدبہ تھا اور ان کی با ت کی اہمیت تھی لیکن اب ذات پات کی سیاست کے درمیان ان کی اہمیت ختم ہو چکی ہے ۔مسلم قیادت بھی مستقبل کے لئے آنے والی نسلوں کی سیاست تربیت کرنے میں نا کام رہی ۔اور آج دھیرے دھیرے کرناٹک کی سیاست سے مسلم قیادت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔