جب برطانوی حکومت نے بنایا ہندوستانی شہریوں کے خلاف قانون، تو مولانا مظہرالحق نے کھول دیا تھا مورچہ
افروز عالم ساحل
’’مظہرالحق ایک عظیم محب وطن، اچھے مسلمان اور فلسفی تھے۔ بڑی عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ جب عدم تعاون کا موقع آیا تو پرانی کینچلی کی طرح سب نمود و نمائش ترک کر دی۔ شاہانہ ٹھاٹھ باٹ والی زندگی کو چھوڑ کر درویشانہ گزربسر کرنے لگے۔ وہ اپنے قول و فعل میں ایک تھے، نڈر، بے باک اور اور بے ریا تھے۔ پٹنہ کے نزدیک صداقت آشرم ان کے اخلاص، بے لوث خدمت اور ریاضت ہی کا ثمرہ ہے۔ آپ وہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہے۔ ان کے آشرم نے ودیاپیٹھ کے لیے ایک قطعہ اراضی فراہم کیا تھا۔ ان کی یہ کوشش دونوں فرقوں کو اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھے گی۔ ایسے بے لوث شخص کا نقصان ہمیشہ کھٹکےگا، اور خاص طور پر آج جبکہ ملک اپنے ایک تاریخی موڑ پر ہے، ان کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جائے ۔ ‘‘
مہاتما گاندھی نے مولانا مظہرالحق (بیرسٹر) کے لیے یہ باتیں ان کے انتقال کے موقع پر تعزیت کے اظہار میں 9 جنوری 1930 کو ’ینگ انڈیا‘ میں لکھی تھیں۔ پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے: ’’مظہرالحق کے چلے جانے سے ہندو مسلم اتحاد اور معاہدے کا ایک بڑا ستون ٹوٹ گیا۔ اس میدان میں ہم بے دست و پا ہو گئے۔‘‘
27 دسمبر 1929 کو مولانا مظہر الحق پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔ چند دنوں کی علالت کے بعد مولانا نے 2 جنوری، 1930 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
مولانا مظہرالحق جنگ آزادی کے ایک بے لوث مجاہد آزادی تھے۔ وہ پوری شد و مد کے ساتھ تحریک آزادی میں شامل رہے۔ مہاتما گاندھی کو حوصلہ دینے سے لے کر قدم قدم پر ان کے ساتھ تحریک آزادی میں ان کا ساتھ دیتے رہے۔ مگر افسوس، تاریخ نے گاندھی جی کو تو بخوبی یاد رکھا، مگر بہار کے مولانا مظہرالحق کو فراموش کردیا۔ ان کی قربانیوں کو نہ اس طرح یاد رکھا گیا جیسا کہ ان کا حق تھا اور نہ جہد آزادی کے تذکرہ نگاروں نے انھیں مناسب مقام دیا۔ کانگریس پارٹی نے بھی مظہرالحق کے ساتھ انصاف نہیں کیا، جبکہ وہ بہار میں کانگریس کے تمام بڑے پروگراموں اور پالیسیوں کے روح رواں رہے تھے۔ آج ان ہی کے صداقت آشرم میں بہار کانگریس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ اسی صداقت آشرم میں ان کے نام پر قائم لائبریری میں ان سے وابستہ کوئی معلومات یا یادگار نہیں ہے۔ یہاں کے افسر مولانا مظہرالحق کو جانتے تک نہیں ہیں۔
چمپارن ستیہ گرہ اور مظہرالحق
بابائے قوم مہاتما گاندھی جب جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے تو مولانا مظہرالحق (بیرسٹر) کی وجہ ہی سے بہار میں قیام پذیر ہوئے ، اور آزادی کی لڑائی میں اہم کردار ادا کیا، نیز پوری دنیا میں ان کی ایک الگ شناخت بنی۔
10 اپریل 1917 کو گاندھی جی چمپارن کے راجکمار شکلا کے ساتھ جب کلکتہ سے پٹنہ پہنچے، تو وہ انہیں ڈاکٹر راجندر پرساد کے گھر لے گئے۔ ڈاکٹر پرساد اپنے گھر پر نہیں تھے، غالباً وہ پوری گئے ہوئے تھے۔ ان کے بنگلے پر ایک دو ملازم موجود تھے۔ ان ملازموں نے گاندھی جی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ گاندھی کو بیت الخلا کی حاجت ہوئی۔ راجکمار شکلا نے گھر کے اندر والے بیت الخلا کا استعمال کرنے کو کہا، لیکن ڈاکٹر پرساد کے ملازموں نے گاندھی جی کو باہر نکال دیا۔ گاندھی جی اس بات سے انتہائی دل برداشتہ ہوئے۔ وہ اس حد تک کبیدہ خاطر ہوئے کہ انھوں نے بہار سے واپس جانے کا ارادہ کرلیا۔ اسی بیچ انھیں یاد آیا کہ مولانا مظہرالحق لندن میں پڑھتے تھے۔ 1915 میں کانگریس کے بمبئی اجلاس میں ان سے ملاقات کی یاد بھی گاندھی جی کو آئی، جب مظہر الحق نے اپنی پرانی شناخت بتا کر ان سے کہا تھا: ’’آپ کبھی پٹنہ آئیں تو میرے گھر ضرور تشریف لائیں۔‘‘
بس پھر کیا تھا۔ گاندھی جی نے فوری طور پر تار بھیجا۔ راجکمار شکلا اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ گاندھی جی نے انہیں مظہرالحق کے گھر بھیجا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’گاندھی جی کے حکم سے میں مظہرالحق صاحب سے ملا۔ مظہرالحق صاحب اپنی گاڑی میں مجھے بٹھا کر گاندھی جی کے پاس پہنچے …. ‘‘ مظہرالحق ڈاکٹر پرساد کے گھر پہنچے اور گاندھی کو اپنے گھر لے گئے۔ انہوں نے گاندھی جی کو مناسب احترام دیا اور آگے کے مقصد پر بات چیت کی۔ چمپارن جانے کے راستوں سے انہیں واقف کرایا، بلکہ گاندھی جی انہی کی مدد سے چمپارن پہنچے۔ چمپارن میں عدم تشدد پر مبنی ستیہ گرہ کیا۔ اس کے بعد تحریک آزادی جس طرح بڑھی پھولی وہ تاریخ کے صفحات پر سنہرے حروف میں درج ہے۔ اگر مظہرالحق اس اہم موڑ پر گاندھی جی کا ساتھ نہ دیتے تو شاید ملک کی تقدیر اور خود گاندھی جی کی تقدیر کچھ مختلف ہوتی۔
قابل ذکر ہے کہ چمپارن کے موتیہاری میں گاندھی جی پر جب مقدمہ ہوا تو اس کی خبر ملتے ہی مظہرالحق وہاں پہنچ گئے۔ گاندھی جی نے ایک میٹنگ بھی منعقد کی، جس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ گاندھی کے جیل جانے کے بعد مظہرالحق اور برج کشور پرساد تحریک آزادی کی قیادت کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ گاندھی جی پر کیا گیا مقدمہ واپس لے لیا گیا تھا۔
چمپارن کے رئیتوں پر انگریزوں کے مظالم کے خلاف گاندھی نے اپنی تحقیقات شروع کر دی۔ اس تحقیقات میں مظہرالحق نے فعال کردار ادا کیا ۔ انھوں نے اپنی پرشکوہ اور پرتعیش زندگی ترک کردی اور سادہ زندگی بسر کرنے لگے۔ گاندھی جی نے اس بات کا ذکر اپنی سوانح عمری میں کئی جگہ کیا ہے۔ بعض جگہوں پر مظہرالحق کو گاندھی جی نے ’دی جینٹل بہاری‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ مظہرالحق اپنے شان شوکت والی زندگی کے لیے پورے بہار میں مشہور تھے۔ لیکن چمپارن ستیہ گرہ نے مظہرالحق پر گہرا اثر ڈالا، اور وہ مکمل طور پر گاندھی کی فکر میں ڈھل گئے۔ چمپارن میں گاندھی جی کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد مظہرالحق گاندھی جی کو جنوری 1918 میں موتیہاری سے چھپرہ لے گئے، جہاں گاندھی جی نے مسلمانوں کے ایک اجتماع میں ہندو مسلم اتحاد مضبوط کرنے والی باتیں رکھیں۔ اس اجتماع میں مظہرالحق نے تقریر کی اور سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ چھپرہ سے پھر دونوں ایک ساتھ موتیہاری گئے اور پھر وہاں سے پٹنہ روانہ ہو گئے۔ پٹنہ پہنچ کر بھی مظہرالحق اپنے اہلیہ سے ملنے نہیں گئے، بلکہ انہیں خط لکھ کر بتایا کہ ’’اگر وائسرائے علی برادران (محمد علی و شوکت علی) کو رہا کرتے ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ ہندوستان میں اس کے خلاف اتنی بڑی تحریک چلائی جائے گی کہ اس جیسی تحریک تاریخ میں کبھی نہ چلی ہوگی۔ اس تحریک میں میں بھی حصہ لوں گا اور شاید ہم سب کو جیل بھی جانا پڑے۔‘‘
چمپارن ستیہ گرہ کے ماسٹر مائنڈ اور کانپور سے نکلنے والے پرتاپ اخبار کے نامہ نگار پیر محمد مونس (انگریز انہیں اپنی خفیہ دستاویزات میں بدمعاش اور آتنکی صحافی بتا چکے ہیں) نے 16 ستمبر 1920 کو مولانا مظہرالحق سے بات چیت کی۔ یہ گفتگو پرتاپ اخبار کے 11 اکتوبر، 1920 کے شمارے میں ’عدم تعاون اور مظہرالحق‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھا۔
اس گفتگو کی تمہید پیر محمد مونس کچھ اس طرح لکھتے ہیں: ’’مہاتما گاندھی کی عدم تعاون تحریک کے سلسلے میں مجھے پٹنہ جانا ہوا۔ 16 ستمبر کو صبح قریب سات بجے مسٹر مظہرالحق کے یہاں سکندر منزل پہنچا۔ اندر داخل ہونے پر میں حیران و پریشان ہو گیا۔ کیونکہ اس جگہ کو کچھ دن پہلے دیکھ چکا تھا، اب وہ پہلے سی شان و شوکت نہیں تھی۔ جس جگہ پرشکو ہ ولایتی کرسیاں ہوتی تھیں، اب وہاں پر قالین بچھے ہوئے تھے۔ آرام کرسی کا کام مسند سے لیا جا رہا تھا۔ مکمل ہال دری اور قالین سے سجا ہوا تھا۔ الماریوں میں ارسطو، شیکسپیئر، کالی داس اور سعدی نظر آ رہے تھے۔ الہلال، انڈپینڈنٹ وغیرہ رسالوں کی پرانی کاپیاں بھی سامنے رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دم رنگ بدلا ہوا تھا۔ ولایتی چیزوں کی جگہ دیسی چیزیں دکھائی پڑتی تھیں۔ مسٹر مظہرالحق دیسی لباس پہنے بیٹھے تھے۔ مارکین کا کرتہ اور پاجامہ۔ مہاتما گاندھی کے مانند ٹوپی سامنے قالین پر رکھی ہوئی تھی۔ بہار کے اس لیڈر کو اس بھیس میں دیکھ کر ملک کا مستقبل آنکھو ں کے سامنے دکھائی پڑنے لگا۔ دماغ میں کئی قسم کی امنگیں اٹھنے لگیں، اسی امنگ میں آکر میں نے مسٹر حق سے سوال پوچھنے شروع کر دیے… ‘‘
ایک طویل بات چیت میں پیر محمد مونس نے مظہرالحق سے جب پوچھا ’’عدم تعاون کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ تو مظہرالحق کا جواب تھا ’’میں کونسل کی امیدواری سے ہٹ جاؤں گا، میں لڑکے کو اسکول سے ہٹا لینے کے لیے ہیڈ ماسٹر کو خط لکھ چکا ہوں، میں بیرسٹری چھوڑ دوں گا، میرے پاس خطاب تو ہے نہیں، اگر ہوتا تو اسے بھی واپس کر دیتا … ‘‘
یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ مظہرالحق نے تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون میں اپنا سب کچھ لگا دیا تھا۔ مظہرالحق ترکی زبان جانتے تھے اور ہندوستان میں تحریک خلافت شروع ہونے سے پہلے ہی مظہرالحق کا ترکی کے چند سربرآوردہ سیاسی رہنماؤں سے رابطہ قائم ہو چکا تھا۔ چونکہ مظہرالحق پین اسلامک تحریک کے لیے کام کر رہے تھے، اس لیے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا فطری امر تھا۔ ابھی ہندوستان میں تحریک خلافت کی شروعات ہی ہوئی تھی کہ یہاں کی برطانوی حکومت رولٹ ایکٹ لے آئی۔ اس قانون نے حکومت کو بے انتہا اختیارات دے دیئے کہ وہ سیاسی تحریکوں کو باغیانہ اقدام کہہ کر انتقامی کارروائی کرسکے۔ ٹھیک ویسی ہی انتقامی کارروائی جو موجودہ دنوں میں اتر پردیش میں یوگی حکومت شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ مظہرالحق کو یہ کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں تھا۔ بس انہوں نے کانگریس کی طرف سے اپنا مورچہ کھول دیا۔ ادھر مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد مارچ 1920 میں وزیر اعظم سے ملنے کے لیے لندن گیا جس نے امن کانفرنس کی سپریم کونسل سے اپنا کیس پیش کرنے کی اجازت مانگی، جسے رد کر دیا گیا۔ وزیر اعظم لائیڈ جارج نے اس وفد کو صاف صاف کہہ دیا کہ جو علاقہ ترکی کا نہیں ہے اسے رکھنے کی اجازت سلطنت عثمانیہ کو نہیں دی جائے گی۔ اس سے ہندوستان کے جذبات مزید مجروح ہوئے۔ اس کے بعد مہاتما گاندھی نے اعلان کیا کہ اگر ترکی سے کیے گئے معاہدے کا احیا ہندوستانی مسلمانوں کے احساسات کے مطابق نہیں ہوتا ہے تو وہ تحریک عدم تعاون کی رہنمائی کریں گے۔ بس یہیں سے ملک میں تحریک عدم تعاون کی شروعات ہوئی۔ ریاست بہار میں اس تحریک کی قیادت مظہرالحق کر رہے تھے۔ انہوں نے پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کر تقریریں کیں۔ خاص طور پر بہار اور اڑیسہ کے مختلف اضلاع کا دورہ کرکے جلسوں سے خطاب کیا اور تحریک عدم تعاون کے سلسلے میں عوام کو دعوت فکر دی۔ بتادیں کہ مظہر الحق ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے مبلغ تھے۔ انہوں نے خلافت اور عدم تعاون تحریک کے دوران ہندو مسلم اتحاد پر بہت زور دیا۔ اس تحریک کے دوران انہوں نے جلسوں سے خطاب کیا تمام میں ہندو مسلم اتحاد کو سب سے بڑی ضرورت بتایا۔
ہندی ادب کے مہاپنڈت راہل سانسکرتائن اپنی کتاب ’میرے ا سہیوگ کے ساتھی‘ میں مظہرالحق کے بارے میں لکھا ہے ’قومیت اور ملک کی خاطر اتنا زبردست دیوانہ بیسویں صدی میں دوسرا کوئی اور مسلمان ہوا ہو، مجھے اس کا پتہ نہیں۔‘‘
مولانا مظہرالحق کے وارث آج بھی اسی پٹنہ میں گم نام زندگی جی رہے ہیں جس پٹنہ میں مظہرالحق نے سینکڑوں ایکڑ زمین ملک کے نام پر کانگریس کو وقف کردی تھی۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہی ہے جہاں مظہرالحق جیسے سچے، بے لوث مجاہد آزادی کو حاشیے پر لاکر بھلا دیا گیا ہے۔ اور سیاست کے نام پر سودے بازی کرنے والے اگلی صفوں میں کھڑے ہیں۔
(مضمون نگار ان دنوں مولانا مظہرالحق کے چمپارن ستیہ گرہ، خلافت اور تحریک عدم تعاون میں کردار نیز مہاتما گاندھی سے ان کے رشتوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ اس حوالے سے مولانا مظہرالحق پر کتاب لکھ رہے ہیں۔)