افروز عالم ساحل
ملک کی آزادی کے بعد دہلی میں مسلمانوں پر غیر مسلموں کا ظلم بڑھ گیا۔ ان کی بیشتر مسجدوں پر غیر مسلموں کا قبضہ ہو گیا۔ تو گاندھی نے اس کے خلاف اُپواس رکھا۔ ان کا یہ اپواس 12 جنوری 1948 کو شروع ہوا۔ پانچ دنوں کے بعد گاندھی جی کی طبیعت بگڑنے لگی۔ ان کے گردے ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے۔ لیکن گاندھی جی کسی بھی طرح اپنا اپواس توڑنے کو تیار نہیں تھے۔ ملک کا ہر لیڈر انہیں سمجھا کر ہار چکا تھا اور گاندھی اپنی ضد پر اڑے رہے۔ گاندھی جی کی یہ حالت دیکھ کر مولانا ابوالکلام آزاد کو بہت فکر ہوئی۔ انہوں نے اپواس توڑنے کے بجائے پانی ملاہوا موسمی کا رس پینے کو کہا، مگر گاندھی نے اسے بھی لینے سے انکار کردیا۔ لیکن مولانا کے اصرار کے آگے وہ کچھ شرطوں کے ساتھ لیمو کا رس لینے کو تیار ہوگئے۔
دہلی میں 17 جنوری 1948 کو مولانا ابوالکلام آزاد نے تین لاکھ سے زائد لوگوں کے ایک مجمع سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں کہا ’یہاں آنے سے قبل میں دوبارہ گاندھی جی کے پاس گیا تھا اور ان سے پوچھا کہ ہم لوگ کیا کریں کہ جس سے آپ اپنا اپواس توڑ دیں گے۔ انہوں نے لوگوں کے سامنے سات شرطیں رکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پر وہ ذمہ دار لیڈران دستخط کریں جو ان شرطوں پر پوری طرح عمل کیے جانے کی گارنٹی دے سکیں۔ کوئی جھوٹی یقین دہانی نہ کروائی جائے۔ ان کی شرطیں اس طرح ہیں:
—مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر مسلمانوں کو جانے کی پوری آزادی ہو۔ سات آٹھ دنوں میں وہاں جو عرس ہونے والا ہے اس میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہ کی جائے۔
—شہر کی سبھی مسجدیں، جن پر غیر مسلم لوگوں نے رہنے کے لئے قبضہ کر لیا ہے یا جنہیں مندر بنا لیا گیا ہے، فوری طور پر مسلمانوں کو لوٹا دی جائیں۔
—مسلمانوں کو ان علاقوں میں جہاں وہ فساد سے پہلے رہتے تھے، وہاں کسی رکاوٹ کے بغیرآنے جانے دیا جائے۔
— یہ یقینی بنایا جائے کہ ریلوں میں مسلمان بنا کسی خطرے کے سفر کر سکیں۔
اس طرح سے گاندھی کی کچھ مزید شرطیں تھیں جن میں مسلمانوں کے تحفظ کی بات کی گئی تھی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے بیحد شاندار انداز میں ان تمام باتوں کو رکھا اور پورے ہندوستان کے لوگوں کو ان کی یہ باتیں سمجھ میں بھی آئیں۔
اس اجتماع کے بعد اگلے دن 18 جنوری کو دہلی کی مختلف جماعتوں اور تنظیموں کے سو سے زائد لیڈرجن میں ہندو مہا سبھا، آرایس ایس، جمیعت علماء ہند جیسی تنظیموں کے لوگ بھی شامل تھے، گاندھی جی سے ملنے آئے۔ گاندھی جی کے سامنے عہد نامہ پر دستخط کیا۔ اس کے بعد 12.15 بجے مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک گلاس رس گاندھی جی کو دیا اور اس طرح گاندھی نے اپنا اپواس توڑا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کو قدرت کی طرف سے وہ تمام صفات اور صلاحیتیں وافر مقدار میں ملی تھیں، جو کامیاب خطیب بننے کے لئے درکار ہیں۔ ان کے والد مولانا خیرالدین دینیات کے عالم اور صوفی تھے۔ انہوں نے عربی اور فارسی میں متعدد کتابیں لکھی۔ ان کے مریدوں کا حلقہ خاصا وسیع تھا، جن کی تعلیم و تربیت کے لئے انہیں اکثر ان سے خطاب کرنا پڑتا تھا؛ نیز وہ کلکتے کی جامع مسجد (مسجد ناخدا) میں بھی اکثر جمعہ کی نماز سے پہلے حاضرین کے سامنے وعظ کہا کرتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے سامنے یہ مثالیں ان کی کمسنی کے زمانے سے آتی رہیں۔ ممکن نہیں تھا کہ ان پر اس صورت حال کا اثر نہ ہوتا۔ شاید یہی وہ وجہ تھی کہ مولانا آزاد بچپن سے تقریر کرنے اور مقرر بننے کا خواب دیکھنے لگے تھے۔ اس کی گواہی خود ان کی بڑی بہن فاطمہ بیگم ستمبر 1959 میں ’آجکل‘ میگزین میں لکھے اپنے ایک مضمون میں دیتی ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتی ہیں’۔۔۔ کبھی وہ گھر میں اونچی چیز پر کھڑے ہوجاتے تھے اور سب بہنوں کو آس پاس کھڑا کرکے کہتے تھے کہ تم لوگ تالیاں بجاؤ اور سمجھو کہ ہزاروں آدمی میرے چاروں طرف کھڑے ہیں اور میں تقریر کررہا ہوں اور لوگ میری تقریر سن کر تالیاں بجارہے ہیں۔ میں کہتی تھی کہ بھائی! سوائے ہم دو چار کے یہاں اور کوئی نہیں ہے؛ ہم کیسے سمجھیں کہ ہزاروں آدمی یہاں کھڑے ہیں۔ اس پر وہ کہتے تھے کہ یہ تو کھیل ہے؛ کھیل میں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘
مولانا ابوالکلام آزاد اور صحافت
مولانا ابوالکلام آزاد اپنے ماحول سے متاثر ہوکر بچپن سے ہی تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر پر بھی توجہ دینے لگے تھے۔ وہ 10 سال کی عمر میں نظم و نثر دونوں لکھنے لگے اور ان کی یہ تحریریں کلکتہ اور دوسری جگہوں کے رسائل و جرائد میں شائع ہونے لگی تھیں۔ لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں تھے، وہ اپنا ذاتی رسالہ نکالنا چاہتے تھے، ایسے میں محض 10-11 سال کی عمر یعنی 1899 میں انہوں نے ’نیرنگ عالم‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا۔ اس کے غالباً آٹھ شمارے نکلے اور پھر یہ بند ہوگیا۔ اس میں نوجوان شعرا کی نظمیں شائع ہوتی تھیں۔
مولانا آزاد کی صحافتی زندگی کا آغاز ہفت روزہ ’المصباح‘ کی ادارت سے سال 1900 میں ہوا۔ اس وقت مولانا صرف 12 سال کے تھے۔ 1903 میں انہوں نے ماہنامہ ’لسان صدق‘ جاری کیا۔ اس زمانے میں اس ماہنامہ کی شہرت دور دور تک تھی۔ مولانا محض 20 سال کے تھے کہ انہوں نے مغربی ایشیا کے ملکوں کا دورہ کیا۔ اس سفر میں ان کی ملاقات بہت سے عرب اور ترک انقلاب پسندوں سے ہوئی جو اپنے ملک کی آزادی کے لئے کام کررہے تھے۔ مولانا ان سے متاثر ہوئے اور ہندوستان واپس لوٹ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے، اسی دوران ہندوستانی قوم کو بیدار کرنے کی نیت سے ہفت روزہ ’الہلال‘ نکالنے کی سوچی۔ 13 جولائی 1912 سے مولانا کی ادارت میں یہ اخبار کلکتہ سے منظرعام پر آیا۔ اور منظرعام پر آتے ہی یہ اخبار برٹش حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے لگا۔
کہا جاتا ہے کہ ’الہلال‘ ہندوستان کا پہلا اخبار تھا، جہاں مسلمانوں کے سیاسی و غیر سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی و تاریخی اور سماجی مسائل پربھی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس اخبار کے مضامین سے برٹش حکومت گھبرا اٹھی۔ یہی وجہ ہے انگریزوں کے خلاف اپنی آواز بے باکی سے رکھنے کے ’جرم‘ میں برٹش حکومت نے اس اخبار پر جرمانہ عائد کیا، جب مولانا نے دس ہزار کا جرمانہ ادا نہیں کیا تو برٹش حکومت نے اس اخبار کو بند کروادیا۔ لیکن مولانا آزاد نے جلد ہی اپنا دوسرا اخبار ’البلاغ‘ نام سے جاری کیا۔ اور اس کے ذریعے اپنی صحافت کو زندہ رکھا۔ حالانکہ اس اخبار میں سیاسی مضامین کم، ادب، تاریخ، مذہب اور معاشرتی مسائل پر مضامین زیادہ شائع ہوتے تھے۔
عام طور پر مانا جاتا ہے کہ ایک بہترین صحافی وہ ہے جو دنیا کی تمام باتوں کو جانے، لیکن ماہر کسی کا نہ ہو۔ لیکن مولانا آزاد کی عجیب و غریب خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت جانتے تھے اور جو کچھ جانتے تھے ماہرانہ حیثیت سے جانتے تھے۔ ایسی نظیر صحافت کی دنیا میں مشکل سے ہی مل سکتی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور کتابوں کا شوق
مولانا آزاد کو کتابوں کا بڑا شوق رہا۔ آپ کو جان کر بیحد حیرانی ہوگی کہ کتابوں کا یہ شوق انہیں 10 سال کی عمر سے ہی تھا۔ وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں، ’دس برس کی عمر میں مجھے کتابوں کا اتنا شوق رہا کہ ناشتے کے جو پیسے ملتے تھے، ان کو جمع کرتا تھا اور ان سے کتابیں خریدتا تھا۔‘
سیاست میں ہمہ وقت مصروفیت کے باوجود مولانا آزاد نے اپنے علم کو کبھی نہیں چھوڑا۔ وہ آخری لمحے تک اس کے ساتھ وفادار رہیں۔ وہ علم کے ساتھ اپنی سماجی ذمہ داریوں کو بھی سمجھتے تھے۔ وہ اپنے وطن کے فرائض کو بھی جانتے تھے۔ علم کی لگن ان کے دل میں ہمیشہ لگی رہی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں متعدد کتابیں لکھیں جو بڑی قابل قدر ہیں۔ جن میں ترجمان القرآن اور انڈیا ونس فریڈم وغیرہ اہم ہیں۔ اس کے علاوہ ’تذکرہ‘ اور ’غبار خاطر‘ ان کی دو ممتاز تصنیفیں ہیں جو اردو ادب کا سرمایہ افتخار رہیں گی۔
ان کی موت کے بعد ایک تقریر میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا ’کتابوں کی تلاش، چیزوں پر غور و فکر، ان کو سوچنا اور سمجھنا۔ چاہے وہ تاریخی مسائل ہوں، چاہےوہ ادبی مسائل ہوں، چاہے وہ علمی مسائل ہوں، ان کا یہ شغل آخر تک باقی رہا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ علم کوئی گورکھ دھندا نہیں ہے کہ جس سے لوگوں کو دھوکے دیئے جائیں، بلکہ علم ایک روشنی ہے جس سے آدمی دوسروں کو روشنی دکھا سکتا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس عالم، اس مفکر اور اس مرد مجاہد نے حق کہنے، ناگوار سچی بات کہنے کی مثال قائم کی۔ ‘
مولانا ابوالکلام آزاد اور خلافت تحریک
1916 میں مولانا ابوالکلام آزاد کو برٹش حکومت نے رانچی میں نظربند کردیا۔ تقریباً چار سال بعد 27 دسمبر 1919 کو انہیں قید و بند کی زندگی سے نجات ملی۔ آزاد ہوتے ہی مولانا آزاد سے گاندھی جی 18 جنوری 1920 کو ملے اور اس ملاقات کے ساتھ ہی مولانا آزاد کانگریس کی سیاسی تحریک میں کود پڑے۔ جب ملک میں خلافت تحریک کی شروعات ہوئی تو مولانا ابوالکلام آزاد اس سے وابستہ ہوئے اور کچھ ہی دنوں میں اس تحریک کے بڑے قائد بن کر ابھرے۔ وہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر اپنی تقریروں سے لوگوں میں جوش و جنون بھر رہے تھے۔ وہیں اپنی تحریروں سے لوگوں کو اس تحریک کی ضرورت سے روبرو کرارہے تھے۔ اس تحریک سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت کو محسوس کیا اور اسے قوت عطا کی۔ مولانا آزاد اس اتحاد کے لئے پیش پیش رہے۔ انہوں نے 25 اگست 1921 کو اپنے خطبۂ صدارت مجلس خلافت آگرہ میں صاف صاف کہا، ’میرا عقیدہ ہے کہ ہندوستان میں، ہندوستان کے مسلمان اپنے بہترین فرائض انجام نہیں دے سکتے۔ جب تک وہ احکام اسلامیہ کے ماتحت ہندوستان کے ہندوؤں سے پوری سچائی کے ساتھ اتحاد و اتفاق نہ کرلیں۔۔۔ ‘
اسی اتحاد کے متعلق انہوں نے اپنی وہ بات بھی دہرائی جو ’الہلال‘ کے پہلے شمارے میں کہی تھی، ’۔۔۔ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان ہندوستان کے بائیس کروڑ ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہوجائیں کہ دونوں مل کر ہندوستان کی ایک قوم اور نیشن بن جائیں۔‘
25 اگست 1921 کو مولانا ابوالکلام آزاد نے جو خطبۂ صدارت مجلس خلافت آگرہ میں پڑھا، وہ کافی اہم تھا۔ اس سے ان کی قرآن اور مذہب کے ساتھ وابستگی، ان کے سیاسی شعور، انگریزوں کے خلاف ان کے جذبات، ہندو مسلم اتحاد اور آزادئ ہند کے لئے ان کے دل میں بے پناہ جوش کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی تحریک کے دوران 10 دسمبر 1921 کو مولانا آزاد کلکتہ میں گرفتار ہوئے اور انہیں ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ 6 جنوری 1923 کو مولانا آزاد رہا ہوئے۔ ان کی رہائی کے بعد اگست 1923 میں بمبئی میں کانگریس کا ایک خاص جلسہ مولانا آزاد کی صدارت میں ہونا قرار پایا۔ پھر دہلی میں 5 ستمبر 1923 کو یہی مولانا آزاد کی صدارت میں ہوا۔ اس وقت مولانا کی عمر محض 35 سال تھی۔
جب ملک کا بٹوارہ ہوچکا تھا۔ مسلم لیگ نے کراچی میں اپنا اجلاس بلایا۔ اس کے جواب میں مولانا آزاد نے 27-28 دسمبر 1947 کو لکھنؤ میں مسلمانوں کا اجلاس بلایا، جس میں قریب ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی اور یہ تجویز پاس کی کہ مسلمان اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں کو ختم کرکے کانگریس میں شامل ہوجائیں۔ یہ مولانا آزاد ہی تھے جنہوں نے آزادی سے قبل پوربی بنگال میں چل رہے فساد کو غیر اسلامی قرار دیا اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ جہاں ہندو اقلیت میں ہیں وہاں ان کی حفاظت کریں۔ ان کا یہ بیان اس وقت کے تمام اخباروں میں شائع ہوا اور خود گاندھی نے اس بیان کا ذکر 3 نومبر 1946 کو اپنے اخبار ہریجن میں کیا۔
مولانا ابوالکلام محی الدین احمد آزاد آج سے ٹھیک 132 سال پہلے 11 نومبر 1888 کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کے تقریباً 8 برس بعد ان کا خاندان ہندوستان واپس آگیا اور کلکتہ میں رہنے لگا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم والد کی نگرانی میں روایتی طریقے سے ہوئی۔عربی اور فارسی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے فلسفہ اور علم الحساب کا بھی مطالعہ کیا۔ مولانا آزاد کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ وہ ایک بڑے اسکالر تھے، ساتھ ہی وہ ادیب، شاعر، مقرر، مدبر ماہر تعلیم اور مبلغ اسلام بھی۔ لیکن سیاسی رہنما کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ 22 فروری 1958 کو مولانا ابوالکلام آزاد اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ لوک سبھا میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جواہرلال نہرو نے کہا تھا، ’ہمارے ملک میں بہت سے بڑے لوگ موجود ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہنگے لیکن جو عجیب و غریب اور ایک خاص قسم کی عظمت مولانا آزاد میں تھی وہ ہندوستان یا کسی اور جگہ شاید ہی دیکھنے میں آئے۔‘
ان کی یوم پیدائش ہندوستان میں ’یوم تعلیم‘ کے طور پر منائی جاتی ہے۔ اس کا اعلان حکومت ہند کے ذریعے سال 2008 میں کیا گیا تھا۔