منوسمرتی رجعت پسندانہ ہے کیوں کہ وہ خواتین کو شودر کے طور پر درجہ بندی کرتی ہے، جے این یو کی وائس چانسلر کا دعویٰ
نئی دہلی، اگست 23: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی وائس چانسلر سنت شری دھولیپوڑی پنڈت نے پیر کو دعویٰ کیا کہ منوسمرتی میں خواتین کی شودر کے طور پر درجہ بندی کی گئی، جو کہ ’’غیر معمولی طور پر رجعت پسندانہ‘‘ ہے۔
منوسمرتی ایک ہندو صحیفہ ہے جسے منو نامی ایک سنیاسی نے لکھا ہے۔ اس کو اس کے صنف اور ذات پر مبنی ضابطوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں سماجی طبقوں کے حصوں میں، شودروں پر مبنی حصہ سب سے چھوٹا ہے۔ کاریگر اور مزدور طبقے کے لوگ اس سے وابستہ ہیں۔
محترمہ پنڈت نے کہا ’’کوئی عورت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ برہمن ہے یا کچھ اور۔ میرا ماننا ہے کہ شادی کے ذریعے ہی آپ کو شوہر کی ذات یا باپ کی ذات ملتی ہے۔‘‘
انھوں نے یہ تبصرے نئی دہلی میں سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کی مرکزی وزارت کے زیر اہتمام بی آر امبیڈکر لیکچر سیریز میں اپنے کلیدی خطاب کے دوران کیے۔
محترمہ پنڈت ’’صنفی انصاف کے بارے میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سوچ: یکساں سول کوڈ کو ڈی کوڈ کرنا‘‘ کے موضوع پر گفتگو کر رہی تھیں۔
بزنس اسٹینڈرڈ نے رپورٹ کیا کہ اپنے خطاب میں وائس چانسلر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندو دیوتاؤں کا تعلق اعلیٰ ذات سے نہیں ہے۔
انھوں نے کہا ’’سائنسی طور پر… براہ کرم ہمارے دیوتاؤں کی اصلیت کو دیکھیں، کوئی خدا برہمن نہیں ہے۔ سب سے بڑا ایک چھتریہ ہے۔ بھگوان شِو ضرور ایک درج فہرست ذات یا درج فہرست قبیلہ سے ہوں گے، کیوں کہ وہ شمسان میں سانپ کے ساتھ بیٹھا ہے… ان کے پاس پہننے کے لیے بہت کم کپڑے بھی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ برہمن شمسان میں بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘
اپنی تقریر میں محترمہ پنڈت نے راجستھان میں ایک نو سالہ دلت لڑکے کی موت کا بھی حوالہ دیا، جس کی موت مبینہ طور پر اپنے استاد کی پٹائی کی وجہ سے ہوئی تھی۔
اندرا میگھوال کو 20 جولائی کو اس کے اونچی ذات کے استاد کے برتن سے پانی پینے پر استاد نے مارا پیٹا۔ لڑکا 13 اگست کو احمد آباد کے ایک اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
جے این یو کی وائس چانسلر نے پوچھا ’’براہ کرم سمجھیں، یہ انسانی حقوق کا سوال ہے۔ ہم ایک ساتھی انسان کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘
اپنے خطاب میں محترمہ پنڈت نے یہ بھی کہا کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ صنفی انصاف کے لیے سب سے بڑا خراج تحسین ہوگا۔
ایک یکساں سول کوڈ میں تمام ہندوستانیوں کے لیے شادی، طلاق، جانشینی اور گود لینے کے قوانین کا ایک مشترکہ مجموعہ شامل ہے، بجائے اس کے کہ مختلف عقائد کے لوگوں کے لیے مختلف پرسنل قوانین کی اجازت دی جائے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک ہمارے پاس سماجی جمہوریت نہیں ہے، ہندوستان کی سیاسی جمہوریت سراب ہی رہے گی۔
انھوں نے کہا کہ گوا میں یکساں سول کوڈ ہے جو پرتگالیوں نے نافذ کیا تھا اس لیے یہاں ہندو، عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے بھی ہیں اور سب نے اسے قبول کیا ہے تو ایسا کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔