شاہین باغ کے نعرے لندن میں بھی گونج اٹھے

محمد غزالی خان

لندن : ہرچند کہ یہاں مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے اورہراساں کرنے کے لیے دلی پولیس نہیں تھی، آج برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ۱۰ ڈاؤننگ اسٹریٹ سے چند قدم کے فاصلے پران کا پڑوس کچھ دیر کیلئے دہلی کے شاہین باغ کا نظارہ پیش کررہا تھا۔  جہاں ہندی  نژاد برطانوی شہری اوربرطانیہ میں زیر تعلیم ہندوستانی طلبا نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر وہی نعرے لگائے جو دہلی کے شاہین باغ میں گذشتہ ڈیڑھ مہینے سے لگائے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈتھے ان پر بھی شاہین باغ والے پیغامات درج تھے۔ نعروں میں ’ہم کیا چاہتے آزادی‘،  ’جان سے پیاری آزادی‘، ’منوواد سے آزادی‘، ’سی اے اے سے آزادی‘  وغیرہ شامل تھے۔

جن لوگوں نے ریلی سے خطاب کیا ان میں لندن اِلفرڈ ساؤتھ لیبرپارٹی کے رکن پارلیمنٹ سیم ٹیری شامل تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فسطائیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اِس وقت مہاتما گاندھی سمیت آزاد ہندوستان کے معماروں کی روحوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔

دیگرپانچ ارکان پارلیمنٹ جو احتجاج میں شامل نہیں ہو سکے، انہوں نے مظاہرین کے ساتھ یکجہتی اور سی اے اے کی مذمت میں پیغامات بھیجے تھے۔ مثال کے طورپر ناٹنگھم ایسٹ کی رکن پالیمنٹ نادیہ وِٹکامب نے اپنے پیغام میں کہا: ’بہت سے لوگ اِس احتجاج کوہندوستان مخالف  گردانیں گے۔ مگر یہ رجعت پسندی کے خلاف لڑی جانے والی عالمی جنگ کا ایک حصہ ہے خواہ یہ ہندوستان میں ہو، ہنگری، برازیل اوریا پھربرطانیہ میں ہو۔ جنوبی ایشیا میں اوروہاں سے آئے ہوئے یہاں آباد لوگ ہم سب متحد ہو کر اپنے مشترکہ خوابوں اور امنگوں کی بنیاد پر تفریق اورتقسیم کی سیاست پر قابو پا سکتے ہیں یعنی اچھا معیارزندگی، معقول آمدنی، تحفظ، اور ایک ایسی دنیا جس میں ہمارے بچے صاف ستھری دنیا آب و ہوا میں سانس لیں سکیں۔‘‘

کچھ برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے برطانوی وزیر خارجہ اورلندن میں ہندوستانی سفیرکو خطوط لکھے ہیں جن میں ہندوستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال پرتشویش کا اظہارکیا ہے۔  20 جنوری کو پارلیمنٹ میں منعقدہ ایک میٹنگ میں ان ارکان پارلیمنٹ نے بتایا تھا کے وہ اپنے خطوط کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ اُس میٹنگ میں شرکاء نے ان ارکان پارلیمنٹ کو باورکرایا تھا کہ جس طرح برطانیہ میں بی جے پی کو انتخابات میں سیاست کرنے دیا جارہا ہے وہ مستقبل میں بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔

اپنے ایک خصوصی پیغام میں شہرت یافتہ جنگ مخالف ایکٹوسٹ اورمصنف طارق علی نے کہا: ’شکریہ مودی۔ تم نے ہندو ؤں اور مسلمانوں کو متحد کردیا ہے۔‘‘

ایک گھنٹے سے زیادہ تقاریر کے بعد مظاہرین نے ہندوستانی سفارت خانے کا رخ کیا۔ جلوس لندن کے معروف مرکزی مقام ٹریفلگراسکوائر سے ہوتا ہوا سفارت خانے کی مشہور عمارت انڈیا ہاؤس کے سامنے پہنچا۔ شرکاےجلوس نے ہاتھوں میں ہندوستانی ترنگا اورطرح طرح کے پلے کارڈاٹھا رکھے تھے ۔

سفارت خانے پر پہنچتے ہی نعروں میں مزید شدت آگئی جن سے مظاہرین کے اندر چھپے غصے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ یہاں پہنچنے کے بعد مظاہرین نے سڑک کے ایک جانب لمبی قطاربنالی اورہندوستانی آئین کی تمہید باآواز بلند پڑھی اوردہرائی۔ جلوس کا اختتام قومی ترانے کے ساتھ ہوا۔

اس جلوس کا اہتمام انسانی حقوق کی تنظیم  جنوب ایشیائی یکجہتی کے لیے سرفرم تنظیم ساؤتھ ایشیا سالیڈیرٹی گروپ نے کیا تھا جس کے ساتھ کوآرڈینینگ کمیٹی ملیالم مسلز، سوس انڈیا سوسائٹی، تامل پیوپل اِن یوکے، انڈیان ورکورز ایسو سی ایشن، انڈیان مسلم فیڈریشن، فیڈریشن آف ریڈ برج مسلم آرگنائزیشنس، کاشمیر سالیڈارٹی مومنٹ، ساؤتھ ایشین اسٹوڈنٹس اگینسٹ فاشزم اور نیوہیم الائنس نے کیا تھا۔

منتظمین نے وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک کھلا خط بھی بھیجا ہے جس میں  کہا گیا ہے: ’ہم آپ کی قیادت میں ہندوستان کو فسطائیت کی دلدل    ڈبوئے جانے پرسخت برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔ 2014 سے ہم ہجومی تشدد، زنابالجبر، مسلمانوں، دلتوں، عیسائیوں اور آدی واسیوں پر حملوں کی مسلسل پھیلتی ہوئی وبا کا مشاہدہ کررہے ہیں جس کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے ان افراد، صحافیوں، وکلا اور یہاں تک کہ ججوں پر بھی حملے ہوئے ہیں جنہوں نے آپ سے اختلاف کیا اور سچ بولنے اوراُس حقیقت کو سامنے لانے کی جسارت کی جو آپ کے دور حکومت میں ہورہا ہے۔‘

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’گذشتہ چھ ماہ کے دوران ہونے والے واقعات خاص طورپرباعث تشویش ہیں۔ پہلے دفعہ 370 ختم کی گئی اور کشمیرمیں فوج کے وجود میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے جو ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے، جو پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ تھی اور جہاں پرلیڈروں کوقید میں ڈال دیا گیاہے، مسلسل کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، نا بالغ بچوں سمیت قیدیوں پر تشدد کیا جارہا ہے اور انٹرنیٹ سروسزبند کردی گئی ہیں جبکہ ریلائنس کے امبانی  سمیت باہرکے کارپوریٹ دوست کشمیر میں زمینیں خرید رہے ہیں۔

’اس کے بعد وہ جگہ جہاں آرایس ایس کے طوفان ٹروپرز کے ہاتھوں مسمار کیے جانے سے پہلے 500 سال تک مشہوربابری مسجد تعمیر رہی، عظیم رام مندرکی تعمیر کے لیے ایک رجعت پسند ہندو تنظیم کو دے دی گئی۔‘

بی جے پی حکومت کی تاریخی مسلم دشمنی پرروشنی ڈالتے ہوئے خط میں کہا گیا ہے، ’ہم نہایت کرب کے ساتھ اس بات کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ ایک ایسی اقلیت کو جسے تاریخی طورپرنشانہ بنایا گیا ہے اسے ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے اوربالآخراس کی نسل کشی کا کام بڑی ہوشیاری سے شروع کیا گیا ہے۔‘

خط میں سی اے اے اور این آرسی کی سخت مزمت کرتے ہوئے نریندر مودی سے کہا گیا ہے کہ ’ہندوستان بھر میں ہونے والے جمہوری اور عوامی احتجاج کو سنیے، سی اے اے کو منسوخ کیجیےاور این آر سی اور این پی آر کو فوری طور پرختم کیجیے۔‘