اگر اجے مشرا کسانوں کو دھمکیاں نہ دیتے تو لکھیم پور تشدد کو ٹالا جا سکتا تھا: ہائی کورٹ
نئی دہلی، مئی 9: الہ آباد ہائی کورٹ نے پیر کو کہا کہ لکھیم پور کھیری تشدد کو روکا جا سکتا تھا اگر مرکزی وزیر اجے مشرا نے مقامی کسانوں کو دھمکی نہ دی ہوتی۔
25 ستمبر کو اجے کمار مشرا کا ایک ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں وہ کسانوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ ’’ان کو نظم و ضبط سکھائیں گے‘‘۔ اس نے کہا تھا کہ ’’اپنے طریقے ٹھیک کرو ورنہ ہم تمھیں ٹھیک کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ اس میں صرف دو منٹ لگیں گے۔‘‘
مشرا نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں غلط سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ویڈیو کلپ کا صرف ایک حصہ میڈیا نے چلایا تھا۔
کسانوں کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ 3 اکتوبر کو اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری ضلع میں احتجاج کے دوران اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی گاڑی نے چار کسانوں سمیت آٹھ افراد کو کچل دیا تھا۔
آشیش مشرا اس معاملے میں اہم ملزم ہے۔ سپریم کورٹ سے اس کی ضمانت منسوخ ہونے کے بعد وہ فی الحال لکھیم پور جیل میں بند ہیں۔
پیر کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے کہا کہ سیاسی رہنما مہذب زبان کا استعمال کرتے ہوئے عوامی بیان دیں۔
دی ہندو کے مطابق جسٹس دنیش کمار سنگھ نے کہا ’’کئی معصوم جانیں ایک انتہائی ظالمانہ، شیطانی، وحشیانہ، بھیانک اور غیر انسانی طریقے سے ضائع نہیں ہوئی ہوں گی جو مبینہ طور پر اس کے بہت ہونہار بیٹے اور دیگر ملزمان نے کی تھیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز سیاسی افراد کو معاشرے میں اس کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہذب زبان میں عوامی بیان دینا چاہیے۔‘‘
سنگھ نے یہ مشاہدہ کیس میں چار شریک ملزمان سُمِت جیسوال، انکت داس، ششپال اور لوکُش کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کیا۔ داس اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ بابو بنارسی داس کے پوتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ لکھیم پور تشدد کے دن آشیش مشرا کی طرف سے علاقے میں کرفیو نافذ ہونے کے باوجود ایک کشتی کا مقابلہ منعقد کیا گیا تھا۔
دی ہندو کے مطابق عدالت نے کہا ’’قانون سازوں کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ عدالت اس بات پر یقین نہیں کر سکتی کہ یہ ریاست کے نائب وزیر اعلی [کیشو پرساد موریہ] کے علم میں نہیں ہوتا کہ علاقے میں دفعہ 144 سی آر پی سی [ضابطہ فوجداری] کی دفعات کو نافذ کیا گیا تھا اور کسی بھی اسمبلی یا اجتماع کو روک دیا گیا تھا۔‘‘
معلوم ہو کہ موریہ نے اس مقابلے میں شرکت کی تھی۔