حجاب تنازعہ: چیف جسٹس نے ہولی کی چھٹی کے بعد دی سماعت کی تاریخ
نئی دہلی،03مارچ :۔
کرناٹک حجاب تنازعہ کے معاملے میں طالبات کو راحت ملنے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔آئندہ9 مارچ کا امتحانات ہونے والے ہیں اور اس سلسلے میں ابھی سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی ہے ۔آج بھی حجاب کے معاملے کو چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے ذکر کیا گیا جہاں انہوں نے ہولی کی چھٹی کے بعد سماعت کی بات کہی۔
رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا ہے کہ وہ کرناٹک میں حجاب سے متعلق معاملے کی جلد سماعت کے لیے ایک بنچ تشکیل دیں گے۔ جمعہ کو شریعت کمیٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ 9 مارچ سے شروع ہونے والے امتحانات میں طالبات کو حجاب کے ساتھ امتحان دینے کی اجازت دی جائے۔اس پر چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت ہولی کی چھٹی کے بعد ہوگی۔ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگلے 5 روز میں امتحانات شروع ہو رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آخری دنوں میں آئے ہیں، اب ہم کیا کریں؟
اس پر طالبات کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ ہم پہلے بھی آئے ہیں، معاملہ فروری میں بھی آیا تھا۔ 10 دن پہلے بھی ایسا ہی ہوا۔ اب امتحانات کا کیا ہوگا؟ وکیل کی اس دلیل پر سی جے آئی چندر چوڑ نے کہا کہ ہم آپ کے تمام سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے… معاملے کی سماعت کریں گے۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے اس معاملے کی جلد سماعت کے لیے ایک بنچ تشکیل دینے کو کہا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 22 فروری کو ایڈوکیٹ شادان فراست نے اس معاملے کا ذکر کیا تھا اور طالبات کو حجاب پہن کر امتحان میں شرکت کی اجازت مانگی تھی۔ تب چیف جسٹس نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کریں گے۔ اس سے قبل 23 جنوری کو سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ نے بھی اس معاملے کا ذکر کیا تھا اور فوری سماعت کا مطالبہ کیا تھا۔ تب بھی سی جے آئی نے جلد ہی اس کی سماعت کا یقین دلایا تھا۔ بتا دیں کہ کرناٹک کے اسکولوں اور کالجوں میں حجاب کا مسئلہ کافی دنوں سے گرم ہے۔ یہ تنازعہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا تھا۔ تب ہائی کورٹ نے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھاتھا۔
اس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ اکتوبر 2022 میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچوں نے الگ الگ فیصلے سنائے تھے۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب کے حق میں فیصلہ دیا۔ جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی۔ الگ الگ فیصلے کی وجہ سے اسے لارجر بنچ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔