کرناٹک ہائی کورٹ نے سترہ سالہ مسلم لڑکی کی شادی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ POCSO ایکٹ پرسنل لاء کو کالعدم کردیتا ہے

نئی دہلی، اکتوبر 31: کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک حاملہ نابالغ مسلم لڑکی کی شادی کو یہ کہتے ہوئے کالعدم قرار دیا کہ مذہب کا پرسنل لاء غلط ہے کیوں کہ یہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے دفعات یعنی پوکسو ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

ہائی کورٹ ایک شخص کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جس نے مسلم لڑکی سے شادی کی ہے، جب عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ 15 سال کی عمر کے بعد پرسنل لاء کے تحت اس کی شادی بچوں کی شادی کی ممانعت کے قانون، 2006 کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔

جسٹس راجندر بادامیکر نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ POCSO ایکٹ ایک خصوصی ایکٹ ہے اور یہ ذاتی قوانین کو کالعدم کرتا ہے۔ POCSO ایکٹ کے تحت عورت کے لیے جنسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی قانونی عمر 18 سال ہے۔

تاہم اس شخص کو ضمانت مل گئی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 17 سالہ لڑکی کرناٹک کے پرائمری ہیلتھ سینٹر میں میڈیکل چیک اپ کے دوران حاملہ پائی گئی۔

اہلکار نے پولیس کو مطلع کیا جس کے بعد اس کے شوہر کے خلاف POCSO ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ شکایت میں اس پر ایک نابالغ لڑکی سے شادی اور اسے حاملہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

تاہم ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ لڑکی ایک رضامند فریق ہے کیوں کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس نے اپنی شادی پر کوئی اعتراض کیا ہو۔

ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق اپنی ضمانت کی درخواست میں درخواست گزار نے کہا کہ اسلامی قانون کے تحت بلوغت کو شادی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے اور عام بلوغت کی عمر کو 15 سال سمجھا جاتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چوں کہ لڑکی پرسنل لاء کے تحت اپنی شادی کے وقت بلوغت کو پہنچ چکی تھی، اس لیے POCSO ایکٹ کے تحت کوئی جرم نہیں کیا گیا۔

بادامیکر نے کہا کہ ’’اعتراف ہے کہ درخواست گزار متاثرہ کا شوہر ہے اور ان حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے شادی کے حوالے سے کوئی سنگین تنازعہ نہیں ہے کیوں کہ درخواست گزار نے خود مقدمے سے پہلے متعلقہ دستاویزات پیش کی ہیں۔‘‘