کرناٹک: سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے لیے 4 فیصد کوٹہ ختم کرنے کے فیصلے پر 9 مئی تک روک لگائی
نئی دہلی، اپریل 25: سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ کرناٹک حکومت کے مسلمانوں کے 4% کوٹہ کو ختم کرنے کے فیصلے کو 9 مئی تک نافذ نہیں کیا جانا چاہیے، کیوں کہ ابھی ریاست نے اس اقدام کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے وقت مانگا ہے۔
گذشتہ ماہ کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے مسلمانوں کو دیگر پسماندہ طبقات کے کوٹے سے نکال دیا تھا۔ یہ فیصلہ 10 مئی کو ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل حکومت کی آخری کابینہ میٹنگ میں لیا گیا تھا۔
بسواراج بومائی حکومت نے کہا کہ یہ ریزرویشن آئینی طور پر قابل عمل نہیں ہے اور اس نے اس 4% کوٹہ کو ریاست کی دو غالب برادریوں ووکلیگاس اور ویراشائیوا لنگایتوں میں مساوی طور پر تقسیم کیا ہے۔
اس حکم کو ایل غلام رسول نامی ایک عرضی گزار نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جنھوں نے کہا ہے کہ ریاست میں غریب مسلمانوں کو دیے گئے ریزرویشن فوائد کو انتخابی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے چھین لیا گیا ہے۔
اس سے قبل کی سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ’’بنیادی طور پر غلط‘‘ ہے۔
منگل کی سماعت میں سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے، جو ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے، سپریم کورٹ سے اگلے ہفتے اس معاملے کی سماعت کرنے کو کہا۔
مہتا نے یہ کہتے ہوئے درخواست کی تھی کہ ہم جنس شادی کے معاملے میں انھیں ایک اور سماعت میں پیش ہونا ہے۔ عرضی گزار کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسے پہلے ہی چار بار ملتوی کیا جا چکا ہے۔
مہتا نے کہا کہ جیسا کہ ریاستی حکومت نے 18 اپریل کو پچھلی سماعت میں یقین دہانی کرائی تھی، اگلی سماعت تک نئے کوٹے کے تحت کوئی تقرری یا داخلہ نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ عدالت کا عبوری حکم پہلے ہی درخواست گزاروں کے حق میں ہے۔
جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتھنا کی ڈویژن بنچ نے اس کے بعد سماعت 9 مئی تک ملتوی کر دی۔