موت سے واپسی! جامعہ کے ایک عینی شاہد کی دلدوز کہانی

اندر کیا کچھ ہوا، اور تشدد و مظالم کی انتہا کس حد تک کی گئی، اس کا اندازہ باہر کے لوگ نہیں لگاسکتے۔ چونکہ میں اس پورے واقعہ کا چشم دیدگواہ ہوں

محمد علم اللہ

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں پولس کے داخلہ اورطلبہ پر جبرنیز اسٹاف کی بدسلوکی کی معمولی سی خبر بعض میڈیا نےدی ہے، لیکن اندر کیا کچھ ہوا، اور تشدد و مظالم کی انتہا کس حد تک کی گئی، اس کا اندازہ باہر کے لوگ نہیں لگاسکتے۔ چونکہ میں اس پورے واقعہ کا چشم دیدگواہ ہوں، لہٰذا’بیان گواہی‘ کی ایک غیر رسمی صحافتی ذمے داری نبھانے کی کوشش کررہاہوں تاکہ عام لوگوں کو علم ہوسکے کہ جامعہ کے اندر پولس نے کس طرح بربریت کی اور15 دسمبر کے احتجاج سے جامعہ برادری کا جو خواہ مخواہ رشتہ جوڑ نے کی سعی کی جارہی ہے، اس بابت حقیقی صورتحال کو سمجھنا ممکن ہو۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ طلبہ کا احتجاج دو پہر میں ہی ختم ہو گیا تھا، ہم سب لائبریری میں اپنی اپنی پڑھائیوں میں مصروف تھے، تبھی اچانک چیخنے چلانے اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں، باہر نکلے تو پتہ چلا کہ دہلی پولس نے کیمپس میں آنسو گیس کے گولے داغ دیے ہیں۔

پولیس نے اپنی حیوانیت ودرندگی کاایک نمونہ یوں بھی پیش کیا کہ جامعہ کے اندرگھستے ہی لائٹس آف کردیں اور اندھیرے میں نہ صرف انھوں نے بے ہنگم گالیاں بکیں؛ بلکہ کئی طلبا کوزدوکوب بھی کیا اوربہت سی طالبات کے ساتھ بھی زیادتی کی ـ

پورے کیمپس میں جیسے بھگدڑ مچ گئی تھی۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ کچھ طلباءنے مسجدوں میں پناہ لیا ہوا تھا۔ کچھ لائبریری میں آ گئے تھے۔ طلباءکے پاس اس سے بچاؤ کےلئے سوائے نمک اور پانی کے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ نمک بھی طلباء نے کینٹین سے حاصل کیا تھا۔

جب حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تو تقریبا دو سو کی گنجائش والی لائبریری میں ہزاروں طلباء جمع ہو گئے۔ لائبریری پوری طرح ٹھسا ٹھس بھری ہوئی تھی، تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی، سانس لینا بھی دشوار تھا۔ ہم نے دروازے بند کرلیے تھے، لائٹیں گل کردی تھیں۔ میز اور دراز کوکھڑکیوں پر لگا دیا تھا۔ ساری درازیں اور الماریاں دروازے سے ٹکا دی تھیں۔

انتہائی قیامت خیز منظر تھا۔ ہر طرف سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ طالبات کی چیخ آسمان چیر رہی تھیں۔ کسی کا پاﺅں ٹوٹ چکا تھا تو کسی کا ہاتھ ،کئی جگہوں پر خون کے قطرے نظر آرہے تھے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔

کچھ طلباء ریڈنگ روم سے باہر مگر لائبریری کے اندر برآمدے میں بہت پریشان تھے۔ لائبریری میں آنسو گیس کے گولے پھینک دئے جانے کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار تھا۔ ہم کئی لڑکیوں کو انتہائی پریشان حال میں دیکھ رہے تھے۔ سبھی ایک دوسرے کےلئے دعاؤں کے طالب تھے۔

ہم سب موت کو بہت قریب دیکھ رہے تھے۔ تبھی دھڑام دھڑام کی آوازیں آنے لگیں۔ کوئی بہت زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا، لڑکیاں چیخنے لگیں۔ ابھی تھوڑی دیر بھی نہیں گذری تھی کہ ہم نے دھڑام کی آواز کے ساتھ دیکھا کہ سی آر پی ایف نے دروازہ توڑ دیا ہے ۔ لیپ ٹاپ اور کتابیں بکھر گئی تھیں۔پانی اور خون کے قطرے پاؤں سے مسل کر ایک خوفناک منظر پیش کر رہے تھےـ

اندر داخل ہوتے ہی سی آر پی ایف نے آنکھوں کو چوندھیا دینے والی لائٹیں ہمارے آنکھوں پر ڈالیں اور ڈنڈا برسانا شروع کر دیا۔ کچھ لڑکے اور لڑکیاں میزوں کے نیچے چھپ گئے۔ تبھی ان لوگوں نے انتہائی بد تمیزی کے ساتھ ہم سے کہا کہ ہم اپنے ہاتھ اوپر اٹھائیں اور اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جائیں۔

سنگینوں کے سایے میں ان لوگوں نے ہمارے ہاتھ اوپر اٹھوا کر ہمیں لائبریری سے باہر نکال دیا۔ رات ہو چکی تھی اور باہر ہر طرف سی آر پی ایف پولیس کا بسیر اتھا۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا چلتے رہنا رکنا نہیں، جس وقت ہم باہر نکل رہے تھے سی آر پی ایف اور پولیس کے جوان ہمیں ماں بہن کی گالیاں بک رہے تھے وہ لڑکیوں کو بھی غلیظ گالیاں دے رہے تھےـ

وہ ڈنڈے پٹخ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہی لوگ ہیں جو پتھربازی کرتے ہیں حالانکہ پتھربازی خود پولس والوں نے کی تھی۔ جامعہ کے طلبا کا اس میں کوئی رول نہیں تھا۔ ہم ان کے چہروں پر عیاں ہمارے تئیں نفرت اور بربریت کو صاف دیکھ اور محسوس کر سکتے تھےـ

انھوں نے جو لینا لے جا کر ہمیں بیچ راستے میں چھوڑ دیا، ہر جگہ کرفیو کی سی کیفیت تھی۔ پولس والے اپنی من مانی کر رہے تھے۔ وہ اینٹ توڑ توڑ کر سڑک میں بکھیر رہے تھے تاکہ وہ میڈیا والوں کو کہہ سکیں کہ یہ طلبا نے پتھراؤ کیا ہےـ

ہم اب بھی فائرنگ کی آوازیں سن سکتے تھے۔ باہر نکلے تو میٹڑو بند کر دیا گیا تھا۔ آخر ہم جائیں تو کہاں جائیں، جیسے تیسے کرکے وہاں سے پیدل چلتے ہوئے حاجی کالونی پہنچے۔ ہمارے ساتھ کئی طالبات بھی تھیں۔ انھیں ان کے گھروں تک پہنچانا ایک الگ مسئلہ تھا۔ کسی طرح انھیں ان کے گھروں تک پہنچایا۔

ہم رات کے تقریبا بارہ بجے گھر پہنچے تو جو حالت تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ پولس نے مسجد میں بھی حملہ بول دیا تھا، وہاں عبادت میں مصروف طلباء و طالبات کو زد و کوب کیا تھا۔ مسجدوں کی کھڑکیاں توڑ دی گئی تھیں۔ پوری مسجد کشت و خون کا منظر پیش کر رہی تھی۔

مسجد کی جو ویڈیوز وائرل ہوئی، وہ دل کو دہلا دینے والی تھیں۔ پولس نے عوام کا سارا غصہ جامعہ کے طلباء پر اتارا۔ شام ہوتے ہوتے جامعہ کا منظر تبدیل تھا، قیامت صغریٰ بپا تھی۔

جامعہ میں کم از کم سو سے زائد آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے، کئی راﺅنڈ فائرنگ کی گئی، گیٹوں پر موجود گارڈز اور فوجیوں کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئے۔

جامعہ ملیہ کی مسجدکی حرمت پامال کی گئی۔ مسجد کے داخلی دروازے کا کانچ اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، اوقات صلوٰة بھی توڑ پھوڑ کی کہانی بتارہا تھا اور مصلیٰ بھی تتر بتر تھا اور اس پر خون کے دھبے واضح تھے۔

الغرض پولیس نے جامعہ کے طلباکے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کیا اورہم پر چندگھنٹے ایسے گزرے کہ ایسالگ رہاتھا گویاہمارارشتہ زندگی سے کسی بھی وقت ٹوٹ سکتاہےـ ایک عجیب عالمِ خوف وہراس تھا اورپولیس اپنی تمام تردرندگی کے ساتھ نہتھے طلباپرحملہ آورتھی ـ یہ عرصہ ہم نے جس کربناک کیفیت میں گزارا، شایداسے ہم زندگی بھرنہ بھول سکیں ـ ہم توکسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے، مگرخوف ودہشت کاطوفان چھٹنے کے بعدمعلوم ہواکہ ہمارے درجنوں ساتھی غائب ہیں، پولیس انھیں اٹھاکرلے گئی ہے، مگران کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتارہی ہےـ خداان کاحامی وناصرہواوران کی بازیابی کاسامان پیدافرمائےـ

(مصنف جامعہ میں ریسرچ اسکالر ہیں.)