حالیہ بجٹ میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کا خیال نہیں رکھا گیا
اوکھلا کےابو الفضل انکلیو واقع مرکز جماعت اسلامی ہند میں ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم کا اظہار خیال
نئی دہلی،04فروری :
”مرکزی بجٹ، معاشی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور عام آدمی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔مگر حالیہ بجٹ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ معاشرے کے ایک خاص طبقے کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔ اس میں غریبوں، دیہی علاقوں میں رہنے والوں، اقلیتوں اور پسماندہ طبقے کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
مذکورہ خیالات کا اظہار آج اوکھلا کے ابو الفضل انکلیو واقع جماعت اسلامی ہند کے ہیڈ کوارٹر واقع کانفرنس ہال میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم نے کیا ۔انہوں نے اس موقع پر صحافیوں کے مختلف سوالوں کے جواب بھی دیئے ۔
انہوں نےحالیہ بجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں کے لئے بنائی گئی ’منریگا اسکیم‘کے لئے مختص رقم میں کمی، خوراک سبسڈی، کھاد سبسڈی اور پٹرولیم سبسڈی کی رقم میں کمی کے علاوہ اقلیتوں کے لئے مختص بجٹ کو بھی کم کردیا گیا ہے۔اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے لئے مختص رقم کو بھی پورے طور پر خرچ نہیں کیا گیا۔اس کا منفی اثر عام آدمی کی روزمرہ زندگی پر پڑے گا“۔
بھارت کے کارپوریٹس گورننس کی بدحالی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ”محض ایک تجزیاتی رپورٹ کے شائع کردینے کی وجہ سے ایک بڑے کاروباری گھرانے کو مارکیٹ ویلیو میں اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ حکومت کو اس معاملے میں مارکیٹوں کو مطمئن کرنے اور ملک و بیرون ملک سرمایہ کاربرادری کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ضروری اقدمات کرنا چاہئے اور معاملے کی ’جے پی سی‘ یا ’سی جے آئی ‘ کی نگرانی میں تحقیقات کرانی چایئے“۔
ججوں کی تقرری پر بات کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ”جمہوریت میں عدلیہ کو آزاد اور ججوں کی تقرری میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔کالجیم نظام ملک کا قانون ہے اور میرٹ کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس نظام کے تحت ججوں کا تقرر ہونا چاہئے۔البتہ اس نظام میں جو کمیاں ہیں ان پر غور ہو اورانہیں دور کیا جائے۔ عدلیہ میں پسماندہ طبقے اور اقلیتوں کی بھی مناسب نمائندگی ہونی چایئے“۔ پروفیسر سلیم نے کہا کہ ” کچھ معاملات میں بعض گورنر مرکزی حکومت کے سیاسی نمائندے کے طور پر کام کرتے ہیں۔جبکہ گورنر آئین کا نگہبان ہوتا ہے اور ریاست میں ان کی تقرری آئین کی نگہبانی کے لئے ہوتی ہے۔لہٰذا ان کی وفاداری آئین کے ساتھ ہونی چاہئے نہ کہ کسی سیاسی شخصیت یا سیاسی جماعت کے ساتھ“۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر سلیم نے کہا کہ ” ملک کے قانون میں شادی کے لئے عمر کی حد مقرر ہے۔اس قانون کو نافذ کرنا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس قانون کی پاسداری ہر شہری کو کرنا چاہئے۔جو لوگ کم عمری میں شادی کرتے ہیں، وہ قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ حکومت کو اس رجحان کی روک تھام کے لئے کوشش کرنی چاہئے“۔ ایک اور سوال کے جواب میں پروفیسر سلیم نے کہا کہ ”ہم ملک کے ہر فرد، جماعت اور تنظیم سے ملنے اور بات چیت کرنے کے حق میں ہیں۔ ملک میں نفرت، اشتعال انگیزی اور تقسیم کے ماحول کو ختم کرنے کے لئے اگر ان جماعتوں سے بھی ملنا پڑے جو نفرت، اشتعال اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں، تو ان سے بھی مل کر ملک میں امن و بھائی چارہ قائم کرنے اور اقلیتوں کے خلاف نفرت نہ پھیلانے کی بات کی جاسکتی ہے۔ڈائیلاگ سے راہیں کھلتی ہیں اور امن کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔لہٰذا تنظیم یا جماعت کسی بھی نظریہ یا موقف کی حامل ہو، بات چیت کا درواہ کھلا رہنا چاہئے“۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہندو راشٹر کی بات کرتے ہیں یا مسلم مخالف بیانات دیتے ہیں، اس کے پیچھے ان کا سیاسی اور ذاتی مفاد چھپا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔ ہاں، اگر سرکار یا انتظامیہ کی جانب سے کوئی ایسی بات سامنے آئے تو اس پر توجہ دینا ضروری ہوجاتا ہے“۔