جانیے کیا ہیں آئین ہند میں اقلیتوں کے حقوق؟
اقلیتی حقوق کے عالمی دن کے موقعے سے خصوصی مضمون
افروز عالم ساحل
18 دسمبر دنیا بھر میں اقلیتی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی اسے منایا جاتا ہے۔ اس دن ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ دراصل، یہ دن ملک کی اقلیتوں کی ترقی، انہیں ہر میدان میں آگے لانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے منایا جاتا ہے۔ لیکن بھارت میں یہ دن محض ایک خانہ پری ہے۔ زیادہ سے زیادہ چند ایک مقامات پر کچھ سیمینار ٹائپ پروگرام منعقد کر لیے جائیں تو بڑی بات ہے، ورنہ عموماً حکومت اور سرکاری اداروں کو یہ توفیق بھی نہیں ملتی کہ اس دن کی مناسبت سے آئین میں ودیعت کردہ اقلیتوں کے حقوق کا اعادہ ہی کرلیں۔ خود اقلیتیں اس دن سے بے خبر رہتی ہیں۔ ہر چند کہ بھارت نے اپنے دستور میں اقلیتوں کے تمام حقوق مساوی طور پر فراہم کیے ہیں اور ان کی شناخت اور ثقافت کو ترقی دینے کی ذمہ داری ریاست کو دی ہے، اس کے باوجود مختلف سطحوں پر اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات آزادی کے بعد سے تا حال پیش آتے رہے ہیں، اور اس وقت تو یہ اپنے عروج پر ہیں۔
ملحوظ رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کا اعلان 18 دسمبر 1992 کوکیا تھا۔ اقوام متحدہ کی نظر میں اقلیتیں کسی بھی علاقے میں رہنے والے ایسے افراد ہیں جن کی تعداد کسی دوسرے طبقے سے کم ہے، خواہ یہ بناید مذہبی ہو، صنفی ہو، لسانی ہو یا نسلی، اگر وہ قوم کی تعمیر، ترقی، اتحاد، ثقافت، روایت اور قومی زبان کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں تو اس قوم میں اس طرح کی برادریوں کو اقلیت سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اقلیتیں مذہب، زبان، قومیت یا ذات پر مبنی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس وقت کہا تھا کہ ممالک کو اقلیتوں کی ثقافت، مذہب وغیرہ کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ان کا وجود خطرہ میں نہ آئے۔
اقوام متحدہ نے وضاحت کی تھی کہ ریاست اپنے تمام خطوں میں اقلیتوں کے قومی، نسلی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی تشخص کا تحفظ کرے گی اور ان کے تشخص کو باقی رکھنے کے لیے تمام امکانات کو فروغ دے گی۔
یہ وضاحت ساری دنیا میں اقلیتوں کے تحفظ کے ضمن میں بڑا قدم تھا۔ بھارت کے لیے بھی یہ بڑا اہم دن ہے کیونکہ یہاں بھی مختلف اقلیتیں ہمیشہ سے رہتی بستی آئی ہیں۔
آئین ہند میں اقلیتوں کے حقوق:
ملک کا آئین ہر فرد کو بلا امتیاز جنس، مذہب، نسل، ذات اور زبان کے یکساں حقوق و مواقع عطا کرتا ہے، یہ بنیادی حقوق ملک کے ہر شہری کو حاصل ہیں۔ اور انھیں کسی بھی طرح سے چھینانہیں جا سکتا۔ یعنی آئین کی ترمیم سے بنیادی حقوق بالا ہیں۔ وطن عزیز ایک سیکولر ملک ہے، یعنی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ کسی اکثریت کے مذہب کو ریاست کا مذہب قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حیثیت سے ملک کا ہر فرد خواہ وہ اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتا ہو یا اقلیتی طبقے سے، ملک کا مساوی شہری ہے اور ایک شہری کی حیثیت سے اسے بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی شہری کو حاصل ہیں۔ مذہب یا زبان یا دیگر کسی بھی بنیاد پر کوئی شہری دوسرے درجے کا نہیں بلکہ سب اول درجے کے شہری ہیں۔
آئین میں دفعات 29 اور 30 کے تحت تعلیمی حقوق کے لیے اقلیتوں کی ترقی اور ان کی زبان و ثقافت کے تحفظ کے لیے خصوصی دفعات رکھی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ خصوصی دفعات ہیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے۔ مثلاً:
دفعہ 16:
دفعہ 16 اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ سرکاری ملازمت میں نسل، مذہب،ذات اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کا ہر شہری بلاامتیاز سرکاری دفاتر میں ملازمت کا مساوی حق رکھتا ہے۔
دفعہ 25:
دفعہ 25 ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتی ہے۔ یہ دفعہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ کسی اقلیتی طبقہ کا ہر رکن اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا حق رکھتا ہے۔ ریاست صرف ان مذہبی امور سے باز رکھ سکتی ہے جن سے امن عامہ کو خطرہ ہو۔ اقلیتیں صرف اپنے مذہب پر چلنے کا ہی حق نہیں رکھتیں، بلکہ وہ اس کی بلا جبر و تشدد تبلیغ بھی کرسکتی ہیں، کیونکہ جبر و تشدد فرد کی آزادی کو چھیننے کا باعث ہیں۔
دفعہ 29:
دستور نے دفعہ 29 میں مذہبی اور لسانی اقلیات کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنا تعلیمی ادارہ قائم کریں اور اس کو چلائیں۔ یہاں اقلیتوں کو اپنی ثقافت کے مطابق چلنے اور اس کو فروغ دینے کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ بھارت مختلف تہذیبوں کا ملک ہے اور اس کثیر تہذیب کو باقی رکھا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ یہی بھارت کی شناخت ہے۔ بھارت میں ہندی دفتری زبان ہے، اس کے باوجود تمام طبقات کو ان کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم دینے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بھارت میں 20 سے زائد دفتری زبانیں ہیں۔
دفعہ 29 اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ نسل، مذہب، ذات، زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی ہے اور ریاست کے ذریعہ چلائے جارہے یا ریاست سے امداد پا رہے تعلیمی اداروں میں ان بنیادوں پر داخلہ سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دفعہ 30:
دفعہ 30 اقلیتوں کے حقوق کا ایک بڑا آلہ ہے۔ اس دفعہ کی رو سے تمام اقلیتوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کا تعلیمی ادارہ قائم کریں اور اس کا انتظام وانصرام اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ سرکاری امداد حاصل کرنے کے سلسلے میں ایسے اداروں کے ساتھ حکومت تفریق نہیں کرسکتی ہے۔
بھارت کی مذہبی اقلیتیں
مرکزی حکومت نے 2006 میں وزارت برائے اقلیتی امور کی تشکیل کی، جو بھارت کی مذہبی اقلیات کے لیے موجود پروگراموں کو فروغ دینے اور عمل میں لانے کا مرکزی حکومت کا ایک اعلیٰ ادارہ ہے۔
قومی کمیشن برائے اقلیت ایکٹ 1992 کے گزٹ میں شق 2 (ج) کے تحت مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ، زرتشت (پارسی) اور جین کو مذہبی اقلیات میں شمار کیا گیا ہے۔
اقلیتوں کی آبادی کا تناسب
2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی 121 کروڑ ہے۔ ان میں ہندوؤں کی تعداد 79.8 فیصد، مسلم 14.2 فیصد، عیسائی 2.3 فیصد، سکھ 1.7 فیصد، بودھ 0.7 فیصد، جین 0.4 فیصد ہیں۔
لسانی اقلیتیں
لسانی اقلیتوں کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ جو بھارت کی مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حالات کے جائزے کے لیے تشکیل دی گئی تھی، اس میں بھی کوئی واضح تعریف نہیں ملتی ہے۔
اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر ریاست میں ایک غالب زبان ہوتی ہے جس کو لوگوں کی اکثریت بولتی ہے۔ اسے مقامی زبان کہا جاتا ہے۔ وہ تمام لوگ جو مقامی زبان نہیں بولتے ہیں، لسانی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے جہاں قومی سطح پر قومی اقلیتی کمیشن قائم کیا گیا ہے وہیں ریاستی سطح پر ریاستی اقلیتی کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے۔ حالانکہ ابھی تک کئی ریاستیں اپنے یہاں اقلیتی کمیشن کی تشکیل نہیں کر سکی ہیں۔
قومی و ریاستی اقلیتی کمیشن
اقلیتی قانون 1992 کے تحت قومی اقلیتی کمیشن قائم کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ مغربی بنگال ، اتر پردیش، اتراکھنڈ، تمل ناڈو، راجستھان، منی پور، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک، جھارکھنڈ، دلی، چھتیس گڑھ، بہار، آسام اور آندھرا پردیش نے بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاستی اقلیتوں کا کمیشن قائم کیا ہے۔ باقی ریاستوں میں ابھی تک یہ کمیشن قائم نہیں ہو سکی ہے۔
ملحوظ رہے کہ اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف، یا جہاں بھی اسے لگتا ہے کہ اس کے اقلیتی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، اس کی شکایت اقلیتی کمیشن کو کر سکتا ہے۔ اقلیتی کمیشن کا فرض ہے کہ وہ اقلیت طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کی شکایت سنے اور یہ طے کرے کہ مستقبل میں اس کے حقوق کی کسی بھی طرح کی پامالی نہ ہو۔ اقلیتی کمیشن آئین میں مذکور اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ اور بہبود کے ذمہ دار ہیں۔
قومی اقلیتی کمیشن کا کام
قومی اقلیتی کمیشن کے یہ 9 اہم کام ہیں جس کے لیے یہ کمیشن قائم کیا گیا تھا۔
۱۔ اقلیتوں کی ترقی اور ترقی کا جائزہ لینا۔
۲۔ آئین میں بیان کردہ اور پارلیمنٹ اور ریاستوں کی مقننہ / کونسلوں کے ذریعہ نافذ کردہ قوانین کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق کام کی نگرانی۔
۳۔ مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تحفظ کے موثر نفاذ کے لیے سفارش کرنا۔
۴۔ اقلیتوں کو حقوق سے انکار اور تحفظ سے متعلق خصوصی شکایات کا جائزہ لینا اور اس طرح کے معاملات متعلقہ حکام کو پیش کرنا۔
۵۔ اقلیتوں کے خلاف کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کی وجوہات کا مطالعہ کرنا اور ان کے حل کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔
۶۔ اقلیتوں کی سماجی و اقتصادی اور تعلیمی ترقی سے متعلق مضامین کے مطالعہ، تحقیق اور تجزیہ کا بندوبست کرنا۔
۷۔ اقلیتوں سے متعلق کوئی مناسب اقدام تجویز کرنے کے لیے ، جو مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتوں کو اٹھانا ہوگی۔
۸۔ مرکزی حکومت کے لیے اقلیتوں سے متعلق کسی بھی معاملات ، خاص طور پر ان کو درپیش مشکلات سے متعلق مقررہ وقت یا خصوصی رپورٹ کی تیاری۔
۹۔ کسی بھی دوسرے معاملے کے لیے رپورٹ کی تیاری جو مرکزی حکومت کو پیش کیا جاسکے۔