’ہندو راشٹر‘ کے مسودے میں دہلی کے بجائے وارانسی کو دارالحکومت بنانے کی تجویز، ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو رائے دہندگی کا حق نہ ہوگا
نئی دہلی، اگست 13: ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق سادھوؤں اور اسکالرز کا ایک حصہ ’’ہندوراشٹر کی حیثیت سے ہندوستان کے آئین‘‘ کا مسودہ تیار کر رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دستاویز کو ایک ’’دھرم سنسد‘‘ میں پیش کیا جانا ہے جو ماگھ میلہ 2023 کے دوران منعقد کیا جائے گا۔
فروری میں منعقد ہونے والے اس سال کے ماگھ میلے کے دوران ’’دھرم سنسد‘‘ میں ہندوستان کو اپنے ’’آئین‘‘ کے ساتھ ایک ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق وارانسی میں واقع شنکراچاریہ پریشد کے صدر سوامی آنند سوروپ نے کہا کہ اب اس ’’آئین‘‘ کا مسودہ شمبھوی پیٹھادھیشور کی سرپرستی میں 30 لوگوں کا ایک گروپ تیار کر رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ ’آئین‘ 750 صفحات کا ہو گا اور اس کی شکل پر اب بڑے پیمانے پر بات کی جائے گی۔ مذہبی اسکالرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین سے گفتگو اور مباحثے ہوں گے۔ اس بنیاد پر آدھا آئین (تقریباً 300 صفحات) پریاگ راج میں منعقد ہونے والے ماگھ میلہ 2023 میں جاری کیا جائے گا، جس کے لیے ایک ’دھرم سنسد‘ کا انعقاد کیا جائے گا۔‘‘
اخبار کے مطابق انھوں نے کہا کہ اب تک 32 صفحات تیار کیے گئے ہیں جن میں تعلیم، دفاع، امن و امان، ووٹنگ کے نظام سمیت دیگر موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
انھوں نے کہا ’’اس ہندو راشٹر کے آئین کے مطابق وارانسی، دہلی کے بجائے ملک کی راجدھانی ہوگی۔ اس کے علاوہ کاشی (وارنسی) میں ایک ’مذہبی پارلیمنٹ‘ بنانے کی بھی تجویز ہے۔
مسودہ تیار کرنے والے اس گروپ میں، سوروپ سمیت ہندو راشٹرا نرمان سمیتی کے سربراہ کملیشور اپادھیائے، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل بی این ریڈی، دفاعی ماہر آنند وردھن، سناتن دھرم کے اسکالر چندرمنی مشرا اور ورلڈ ہندو فیڈریشن کے صدر اجے سنگھ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق اس ’آئین‘ کے سرورق پر ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ سوروپ نے کہا ’’یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو ممالک ہندوستان سے الگ ہوچکے ہیں جیسے بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، سری لنکا اور میانمار وغیرہ، ایک دن ان کا بھی الحاق ہوجائے گا۔‘‘
دستاویز کی وضاحت کرتے ہوئے سوروپ نے کہا کہ ہر ذات کے لوگوں کو ملک میں رہنے کی سہولت اور تحفظ حاصل ہوگا، لیکن دوسرے مذہبی عقائد کے لوگوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اخبار کے مطابق سوروپ نے کہا ’’ہندو راشٹر کے آئین کے مسودے کے مطابق مسلمان اور عیسائی بھی ایک عام شہری کے تمام حقوق سے لطف اندوز ہوں گے، ووٹ کے حق کو چھوڑ کر۔ ان کا ملک میں اپنے کاروبار کرنے، ملازمت حاصل کرنے، تعلیم اور وہ تمام سہولیات جن سے کوئی بھی عام شہری لطف اندوز ہوتا ہے، کا خیرمقدم کیا جائے گا، لیکن انھیں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔‘‘
سوروپ کے مطابق ووٹ کا حق شہریوں کو 16 سال کی عمر مکمل کرنے کے بعد حاصل ہو گا، جب کہ الیکشن لڑنے کی عمر 25 سال مقرر کی گئی ہے۔ ’پارلیمنٹ آف ریلیجنز‘ کے لیے کل 543 ممبران منتخب کیے جائیں گے۔ نیا نظام برطانوی دور کے اصول و ضوابط کو ختم کر دے گا اور سب کچھ ’ورن‘ نظام کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔‘‘
انھوں نے کہا کہ سزا کا عدالتی نظام تریتا اور دوپارہ یوگوں پر مبنی ہوگا۔
انھوں نے مزید کہا کہ گروکل نظام کو زندہ کیا جائے گا اور آیوروید، ریاضی، نکشتر، بھو گربھا، علم نجوم وغیرہ کی تعلیم دی جائے گی۔
مزید یہ کہ ہر شہری کو لازمی فوجی تربیت دی جائے گی اور زراعت کو مکمل طور پر ٹیکس فری کر دیا جائے گا۔