آگرہ:مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے لئے ہندو مہاسبھا کے کارکنان نے کی گؤ کشی
آگرہ پولیس نے گؤ کشی کے اصل مجرم اور ہندو مہا سبھا کے رہنما سنجے اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے رام نومی کے موقع پر فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کی سازش کا انکشاف کیا
لکھنؤ،08اپریل:۔
ملک میں گؤ کشی کے الزام میں مسلمانوں کی ماب لنچنگ کے واقعات تو آئے دن رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ۔مسلمانوں کو محض شک کی بنیاد پربغیر شواہد کے گؤ رکشا دلوں کے ذریعہ زدو کوب کیا جاتا ہے اور اس پر مزید پولیس بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے ۔اس بات کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی جاتی کہ نانہاد گؤ رکشکوں کے الزام میں کتنی سچائی ہے ۔گؤ کشی کے زیادہ تر معاملوں میں گؤ رکشکوں کے ذریعہ پیسے کی وصولی کے واقعات کا انکشاف ہوا ہے ۔تازہ معاملہ میں اتر پردیش کے آگرہ میں ایک الگ ہی سازش کا انکشاف ہوا ہے جہاں ہندو مہا سبھا کے کارکنان نے رام نومی سے قبل فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے اور مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے لئے خود گؤ کشی کی واردات کو انجام دیا اور پولیس کے پاس شکایت لے کر بھی خود ہی پہنچے۔مگر پولیس کی سنجیدگی سے تحقیقات کے بعد پورے معاملے میں حیران کن انکشاف ہوا ۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق آگرہ کے اعتماد الدولہ تھانہ علاقے کے گوتم نگر میں گپھا کے پاس گؤ کشی کی واردات کو انجام دے کر رام نومی کے موقع پر ماحول خراب کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔متعلقہ پولیس تھانہ کے مطابق پولیس نے اس سلسلے میں دو ملزمین کو گرفتار کیا ۔لیکن تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ اس کے پیچھے کھیل کچھ اور ہے ۔پولیس نے بتایا کہ گؤ کشی کی سازش اکھل بھارت ہندو مہا سبھا کے عہدیداروں نے رچی تھی ۔کچھ مسلم نوجوانوں سے رنجش کے سبب پھنسانے کی کوشش تھی ۔ اس پورے معاملے میں پولیس نے مہا سبھا کے قومی ترجمان سنجے جاٹ کو اہم سازشی قرار دیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گؤ کشی کی واردات کے بعد اکھل بھارت ہندو مہا سبھا کے گڑھی چاندنی ساکن عہدیدار جتیندر کشواہا نے تھانے پہنچ کر مقدمہ درج کرایا تھا۔انہوں نے بتایا کہ انہیں گؤکشی کی اطلاع ملی تھی ۔لیکن جب پولیس نے تفتیش کی تو اطلاع دینے والے سے جتیندر کشواہا کی کوئی بات چیت ہی نہیں ہوئی ۔اس سلسلے میں انہوں نے سازش کے تحت محمد رضوان،محمد نقیم اور محمد شانو کو نامزد کیا تھا اور ہندو مہا سبھا کے کارکنان نے ملزمین کی گرفتاری کے لئے تھانے کا گھیراؤ بھی کیا تھا۔
آگرہ کے چھتاعلاقے کے ایڈیشنل پولیس کمشنر آر کے سنگھ نے کہا: “(مہاسبھا لیڈر) سنجے جاٹ اس پورے معاملے میں اہم سازش کار ہے۔ اس کے کارکنان اور دوستوں نے 29 مارچ کی رات مہتاب باغ علاقے میں ایک گائے کو ذبح کیا اور مہا سبھا کے رکن جتیندر کشواہا سے کہا کہ وہ محمد رضوان، محمد نقیم اور محمد شانو کے خلاف مقدمہ درج کرائے۔ پولیس نے چوتھے ملزم عمران قریشی اور اگلے روز شانو کو گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں تفتیش سے معلوم ہوا کہ نامزد ملزمان کا اس جرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ سنجے کی کچھ لوگوں سے دشمنی تھی اور وہ انہیں اس معاملے میں پھنسانا چا ہتا تھا۔پولیس افسر نے بتایا کہ ہندو مہاسبھا کے ترجمان سنجے نے اس سازش کو انجام دینے کے لیے اقلیتی برادری کے کچھ لوگوں کی مدد لی بھی تھی۔ سنگھ نے کہا کہ ان سب کے خلاف جلد ہی مقدمہ درج کر لیا جائے گا۔
در اصل اس پورے سازش کا انکشاف پولیس نے کال ریکارڈ سے کیا ہے ۔پولیس افسر نے مزید بتایا کہ جیتندر نے پوچھ گچھ کے دوران ہم سے جھوٹ بولا۔ وہ سنجے اور چند دوسرے گائے کے ذبیحہ کے مقام کے قریب تھے، کال ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے۔پولیس افسر نے مزید بتایا کہ کال ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلا کہ ملزمین ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے گؤ کشی کے مقام پرگئے ہی نہیں ۔پولیس نے کہا کہ مبینہ طور پر جھوٹے الزامات کے تحت سات دن قبل گرفتار کیے گئے دونوں کو جلد رہا کر دیا جائے گا۔
دریں اثنا مہاسبھا کے ترجمان سنجے نے دعویٰ کیا کہ پولیس اسے اور اس کے ساتھیوں کو اس کیس میں جھوٹا پھنسا رہی ہے۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایاکہ اگر انہوں نے اس کیس کی صحیح جانچ نہیں کی تو ہم احتجاج کریں گے۔ ’’کچھ لوگ میرے خلاف ہیں اور کیس کو مختلف رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور پولیس افسرنے بتایا کہ’’رام نومی کے موقع پر سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کے لیے گائے کو ذبح کیا گیا۔ ہمارے پاس ایسے واقعے کے بارے میں غیر مصدقہ اطلاعات تھیں لیکن جب انہوں نے کچھ بے گناہ لوگوں کو پھنسانے کی کوشش کی تو حتمی ثبوت کا انکشاف ہوا۔
واضح رہے کہ مہاسبھا کے ترجمان اور اس پورے معاملے میں اہم سازشی سنجے کو فروری میں بھتہ خوری کے ایک کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ اور اس کے ساتھی اکثر گائے لے جانے والی گاڑیوں کو روکتے ہیں اور پولیس کیس درج کرنے کی دھمکی دے کر رقم وصول کرتے ہیں۔ فی الحال وہ ضمانت پر باہر ہے۔