حجاب: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گا، مسلمانوں سے لڑکیوں کے لیے مزید اسکول قائم کرنے کے لیے بھی کہا

نئی دہلی، مارچ 19: حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے مسلم کمیونٹی کے صنعت کاروں اور تاجروں سے اپیل کی ہے کہ وہ پورے ملک میں لڑکیوں کے لیے مزید اسکول قائم کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ لڑکیاں اپنے مذہب، ثقافت اور اخلاقی اقدار پر سمجھوتہ کیے بغیر معیاری تعلیم حاصل کریں۔

AIMPLB مسلم مذہبی اسکالرز کا ایک ملک گیر سطح کا اعلیٰ ادارہ ہے، جس میں اسلامی فکر کے تمام مکاتب فکر کی نمائندگی ہے۔

یہ فیصلہ بورڈ کی آن لائن میٹنگ میں تب کیا گیا، جب ہائی کورٹ نے کرناٹک حکومت کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کے حق کو برقرار رکھا۔ عدالت کا حکم اس مفروضے پر مبنی ہے کہ اسلام میں حجاب لازمی عمل نہیں ہے۔

حکومت کے حکم اور ہائی کورٹ کے فیصلے نے کرناٹک بھر کے اسکولوں اور کالجوں میں ہزاروں مسلم لڑکیوں کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں، کیوں کہ لڑکیاں حجاب کو قرآن کے احکام کی بنیاد پر اسلام کا ایک لازمی عمل مانتی ہیں۔

بورڈ کے اجلاس کی صدارت بورڈ کے سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی۔ میٹنگ میں سینئر ایڈووکیٹ یوسف حاتم مچھالا، لیگل کمیٹی کے کنوینر ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ طاہر حکیم، ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی، ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی اور سیکرٹریز مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، مولانا محمد عمرین، ڈاکٹر محمد قاسم رحمانی، کمال فاروقی، مولانا صغیر احمد رشادی، مولانا عتیق احمد بستوی، جناب کے رحمان خان اور دیگر شامل تھے۔

بورڈ کے ارکان نے محسوس کیا کہ ہائی کورت کے اس فیصلے میں بہت سی خامیاں ہیں۔

پہلی خامی تو یہ کہ فیصلے نے انفرادی آزادی کے حق کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے اور دوسری خامی یہ کہ عدالت نے خود فیصلہ کیا کہ اسلام میں کیا ضروری ہے اور کیا نہیں۔

لیکن بورڈ کے ارکان کا کہنا ہے کہ کسی قانون کی تشریح اور وضاحت کا حق صرف اس قانون کے ماہرین کا ہے، کسی اور کا نہیں۔ بورڈ کا خیال ہے کہ شریعت یا اسلامی قانون سے متعلق کسی مسئلے پر علمائے کرام یا اسلامی ماہرین کی رائے زیادہ اہم اور قابل قبول ہو گی۔ بورڈ کے ارکان نے محسوس کیا کہ حجاب پر فیصلہ سناتے وقت ججوں نے اس پہلو کو مدنظر نہیں رکھا۔

ارکان نے محسوس کیا کہ ہائی کورٹ اس کیس میں انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

انھوں نے محسوس کیا کہ اتنے اہم معاملے پر ایسے فیصلے سے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ عدلیہ جو شہریوں کے انصاف کی امید کی آخری کرن تھی، بھی کمزور پڑ رہی ہے۔

لہذا بورڈ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔

قانون کے پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے بورڈ نے اعلان کیا کہ وہ جلد ہی سپریم کورٹ میں جائے گا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرے گا۔

دریں اثنا بورڈ نے علمائے کرام، دانشوروں، کمیونٹی رہنماؤں، ماہرین تعلیم، صنعت کاروں اور کاروباری افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک بھر میں لڑکیوں کے لیے مزید اسکول قائم کریں جہاں تمام کمیونٹیز کی لڑکیاں اپنے مذہب اور اپنی ثقافت سے سمجھوتہ کیے بغیر اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کر سکیں۔

بورڈ نے مسلم کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیں اور معاشرے میں خواتین کو عزت اور احترام دیں۔ کمیونٹی لیڈرز کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے رجوع کرنا چاہیے اور ان کی انتظامیہ پر زور دینا چاہیے کہ وہ آٹھویں سے اوپر کی کلاسوں کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس رومز قائم کریں۔ اس کے علاوہ کمیونٹی کو ان ریاستوں میں پرامن احتجاج کا اہتمام کرنا چاہیے جہاں حکومتیں تعلیمی اداروں میں اسکارف پہننے پر پابندی عائد کرتی ہیں۔

بورڈ نے ان طالبات کی تعریف کی جنھوں نے اپنا حجاب نہ اتارنے کا انتخاب کیا اور اسلامی علامات کو اپنانے میں ثابت قدم رہیں جس کا کہ قرآن میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

بورڈ نے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ وہ پرامن اور پرسکون رہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں اور بورڈ کی ہدایات کا انتظار کریں۔