’’کیا یونیفارم والے اداروں میں طلبا جو چاہیں پہن سکتے ہیں؟‘‘، حجاب پر پابندی سے متعلق معاملے میں سپریم کورٹ نے پوچھا
نئی دہلی، ستمبر 6: کرناٹک کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پیر کو عرضی گزاروں سے پوچھا کہ کیا طلبا یونیفارم کے حامل اداروں میں جو چاہیں وہ پہن سکتے ہیں؟
جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ ’’آپ کہتے ہیں کہ تعلیمی ادارے کوئی قاعدہ جاری نہیں کر سکتے لیکن ریاست کا کیا ہوگا جب تک کہ کوئی ایسا قانون نہ ہو جو لباس کوڈ پر پابندی لگاتا ہو۔ تو مجھے بتائیں کہ کیا کوئی طالب علم منی، میڈیس، جو چاہے پہن کر آ سکتا ہے؟‘‘
جسٹس گپتا اور سدھانشو دھولیا کرناٹک ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک بیچ کی سماعت کر رہے ہیں جس نے مارچ میں ریاستی حکومت کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔
13 جولائی کو وکیل پرشانت بھوشن نے اس معاملے پر فوری سماعت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پابندی کی وجہ سے حجاب پہننے کی خواہش مند طالبات اپنی پڑھائی سے محروم ہو رہی ہیں۔ کیس کی سماعت 29 اگست کو ہوئی تھی۔
پیر کی سماعت میں ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے، جو درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے، سوال کیا کہ کیا خواتین کو ان کے کپڑوں کی بنیاد پر تعلیم سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ جو لڑکیاں حجاب پہن کر اسکول جاتی ہیں انھیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انھیں کلاس روم سے باہر کھڑے ہونے کو کہا جاتا ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق ہیگڑے نے کہا ’’جب درخواست گزار والدین ان سے ملنے آئے، تو انھیں سارا دن انتظار کرنے پر مجبور کیا گیا اور حکمت عملی انھیں مایوس کرنے کی تھی۔ پھر ضلعی تعلیمی افسران سے رابطہ کیا گیا۔ افسران نے اسکول کے پرنسپل کو حجاب پہننے والے طلبا کو کلاس میں جانے کی اجازت نہ دینے پر سرزنش کی۔‘‘
کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہیگڑے نے عدالت کو بتایا کہ قانون کی دفعہ 39 مذہب / ذات وغیرہ کی بنیاد پر داخلہ سے انکار پر پابندی عائد کرتی ہے۔ انھوں نے ایک قاعدہ ریکارڈ پر رکھا جس میں کہا گیا ہے کہ طلبا کے یونیفارم میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے بارے میں معلومات کو مطلع کرنا ضروری ہے۔
تاہم عدالت نے کہا کہ جب کہ افراد کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے، معاملہ یہ ہے کہ کیا یہ کسی ایسے تعلیمی ادارے میں لاگو ہوگا جس کا لباس کوڈ ہو؟
عدالت نے کہا ’’آپ حجاب یا اسکارف پہننے کے حق دار ہو سکتے ہیں، لیکن کیا آپ کسی ایسے تعلیمی ادارے کے اندر یہ حق لے سکتے ہیں جو یونیفارم کا تعین کرتا ہو؟ وہ [حکومت] تعلیم کے حق سے انکار نہیں کر رہے ہیں وہ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کیوں کہ آپ یونیفارم میں آتے ہیں۔‘‘
اس دوران ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے عدالت کو بتایا کہ حکومتی حکم طالب علم کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔
نوادگی نے کہا ’’ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ حجاب نہ پہنو یا اسکارف نہ پہنو، ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ مقرر کردہ یونیفارم پر عمل کریں۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’کچھ طلبا کے حجاب کے لیے احتجاج شروع کرنے کے بعد، طلبا کا ایک اور گروپ بھگوا [زعفرانی] شالیں پہننا چاہتا تھا۔ اس سے بدامنی کی صورت حال پیدا ہوئی اور اس پس منظر میں 5 فروری کو حکومتی حکم نامہ جاری کیا گیا۔‘‘