گجرات ہائی کورٹ نے نابالغ عصمت دری کی شکایت کنندہ کے اسقاط حمل کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے منوسمرتی کو حوالہ بنایا
نئی دہلی، جون 9: گجرات ہائی کورٹ نے بدھ کے روز اس بات پر زور دینے کے لیے منوسمرتی کا حوالہ دیا کہ لڑکیوں کی شادی 14 سے 16 سال کی عمر تک ہو جاتی تھی اور 17 سال کی عمر تک وہ کم از کم ایک بچے کو جنم دے دیتی تھیں۔
منوسمرتی ایک ہندو صحیفہ ہے جسے منو نامی ایک سنیاسی نے لکھا ہے۔ کتاب کو اس کے صنف اور ذات پر مبنی ضابطوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
سنگل جج جسٹس سمیر ڈیو کی بنچ نے عصمت دری کا شکار ہونے والی نابالغ کے والد کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ مشاہدہ کیا۔ لڑکی کا والد طبی طور پر اس کا سات ماہ کا حمل ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی (ترمیمی) رولز کے تحت حمل کے 20 ہفتوں تک اسقاط حمل کی اجازت ہے۔ وہ خواتین اور نابالغ جن کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے، عصمت دری کی گئی ہے وہ 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کروا سکتی ہیں۔
درخواست گزار کی جانب سے وکیل سکندر سعید نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی کی عمر 16 سال اور 11 ماہ ہے اور اس کے حمل سے اس کی دماغی صحت پر برا اثر پڑے گا۔
جسٹس ڈیو نے تاہم کہا کہ یہ بے چینی اس لیے ہے کیوں کہ ’’ہم 21ویں صدی میں رہ رہے ہیں۔‘‘
جج نے کہا ’’جاؤ اور اپنی ماں یا پردادی سے پوچھو۔ وہ آپ کو بتائیں گی کہ ماضی میں لڑکیوں کی شادی کی عام عمر 14 سے 16 سال تھی۔ جب وہ [لڑکیاں] 17 سال کی ہو جاتی تھیں، تب تک انھیں ایک بچے کو جنم دینا ہوتا تھا۔‘‘
ڈیو نے یہ بھی کہا کہ وہ جو نکتہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’لڑکیاں لڑکوں سے پہلے بالغ ہو جاتی ہیں۔‘‘
اس نے وکیل سے کہا کہ ’’چار پانچ مہینے اِدھر اُدھر سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ یہ منوسمرتی میں موجود ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ اسے نہیں پڑھیں گے لیکن پھر بھی اسے ایک بار پڑھیں۔‘‘
بنچ نے کہا کہ موجودہ کیس کے حالات بتاتے ہیں کہ ماں اور بچہ دونوں صحت مند ہیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق جج نے کہا ’’اگر جنین یا لڑکی میں کوئی سنگین بیماری پائی جاتی ہے تو عدالت [اسقاط حمل کی اجازت دینے] پر غور کر سکتی ہے۔ لیکن اگر دونوں نارمل ہیں تو عدالت کے لیے ایسا حکم دینا بہت مشکل ہوگا۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے راجکوٹ سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو ڈاکٹروں کا ایک پینل بنانے کا حکم دیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا حمل کا طبی خاتمہ مناسب ہے۔