’’اپنے عہدے کے پانچ برسوں کے دوران، میں نے اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنے فرائض ادا کیے ہیں‘‘: صدر رام ناتھ کووند کا قوم کے نام آخری پیغام
نئی دہلی، جولائی 25: صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اپنے الوداعی پیغام میں عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عوام کے ساتھ اپنی کچھ باتیں ساجھا کیں۔
اپنے الوداعی پیغام میں رام ناتھ کووند نے کہا ’’سب سے پہلے، میں آپ تمام ہم وطنوں اور آپ کے عوامی نمائندوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ملک بھر میں اپنے سفر کے دوران شہریوں کے ساتھ میری بات چیت اور رابطوں سے مجھے مسلسل تحریک ملتی رہی ہے ۔ ہمارے کسان اور مزدور، چھوٹے دیہات میں رہنے والے بھائی بہن، ہمارے اساتذہ ، جو نئی نسل کی زندگیوں کو سنوارتے ہیں، ہماری وراثت کو مالا مال کرنے والے فنکار، ہمارے ملک کے مختلف جہتوں کا مطالعہ کرنے والے اسکالر، ملک کی خوشحالی میں اضافہ کرنے والے کاروباری، ہم وطنوں کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر اور نرسیں، قوم کی تعمیر میں مصروف سائنسدان اور انجینئرز، ملک کے عدالتی نظام میں کردار ادا کرنے والے جج اور وکیل، انتظامی نظام کو خوش اسلوبی سے چلانے والے سرکاری ملازمین، ہر طبقے کو ترقی سے جوڑنے میں سرگرم ہمارے سماجی کارکن، بھارتی سماج میں زبردست اعتماد بنائے رکھنے والے سبھی عقیدوں کے اچاریہ اور گرو ، آپ سبھی نے مجھے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل تعاون دیا ہے۔ مختصر یہ کہ مجھے معاشرے کے تمام طبقوں سے مکمل تعاون، حمایت اور آشیرواد حاصل ہوا ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس طرح بہت سے ہم وطنوں سے ملاقات کے بعد میرا یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ ہمارے پُر عزم شہری ہی ہماری قوم کے اصل معمار ہیں اور وہ سب بھارت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایسے تمام پُر عزم ہم وطنوں کے ہاتھ میں ہمارے عظیم ملک کا مستقبل محفوظ ہے۔‘‘
رام ناتھ کووند نے اپنے بچپن کے واقعات اور اسکول اور گاؤں کے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اپنی جڑوں سے جڑے رہنا بھارتی ثقافت کی خصوصیت ہے۔ میں نوجوان نسل سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے گاؤں یا شہر اور اپنے اسکولوں اور اساتذہ سے وابستہ رہنے کی اس روایت کو جاری رکھیں۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’’جمہوریت کے ، جس راستے پر آج ہم آگے بڑھ رہے ہیں ، اس کا خاکہ ہماری دستور ساز اسمبلی نے تیار کیا تھا۔ اس اسمبلی میں 15 خواتین بشمول ہنسابین مہتا، درگابائی دیش مکھ، راج کماری امرت کور اور سچیتا کرپلانی پورے ملک کی نمائندگی کرنے والی کئی معزز شخصیات میں شامل تھیں۔ دستور ساز اسمبلی کے ممبران کی انمول شراکت سے تشکیل دیا گیا دستور ِہند ہمارا روشن مینار رہا ہے اور اس میں پوشیدہ نظریات قدیم زمانے سے محفوظ بھارتی اقدار کا حصہ ہیں۔‘‘
جناب کووند نے کہا کہ ’’آئین کو اپنانے سے ایک دن پہلے دستور ساز اسمبلی میں اپنے اختتامی بیان میں، ڈاکٹر امبیڈکر نے جمہوریت کے سماجی اور سیاسی جہتوں کے درمیان فرق کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں صرف سیاسی جمہوریت سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ میں آپ سب کے ساتھ ، اُن کے الفاظ شیئر کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا، ’’ ہمیں اپنی سیاسی جمہوریت کو ایک سماجی جمہوریت بھی بنانا چاہیے۔ اگر سیاسی جمہوریت ، سماجی جمہوریت پر مبنی نہ ہو تو یہ ٹک نہیں سکتی ۔ سماجی جمہوریت کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب ہے ، زندگی کا وہ طریقہ ، جو آزادی ، برابری اور بھائی چارے کو زندگی کے اصولوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے ۔ آزادی ، برابری اور بھائی چارے کے ، اِن اصولوں کو تری مورتی کے الگ الگ حصوں کےطور پر نہیں دیکھنا چاہیئے ۔ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ اُن میں سے کسی بھی حصے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے پر جمہوریت کا حقیقی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے ۔‘‘
اپنے عہدۂ صدارت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’اپنے عہدے کے پانچ برسوں کے دوران، میں نے اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنے فرائض ادا کئے ہیں۔ میں ڈاکٹر راجندر پرساد ، ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جیسی عظیم شخصیات کا وارث ہونے کے ناتے بہت محتاط رہا ہوں۔ جب میں راشٹرپتی بھون میں داخل ہوا تو میرے اس وقت کے پیشرو جناب پرنب مکھرجی نے بھی مجھے اپنے فرائض کے بارے میں دانشمندانہ مشورے دیئے ۔ اس کے باوجود، جب بھی مجھے کوئی شک ہوا، میں نے گاندھی جی اور ان کے تجویز کردہ منتر کا سہارا لیا۔ گاندھی جی کی صلاح کے مطابق سب سے اچھا رہنما اصول یہ تھا کہ ہم سب سے غریب آدمی کے چہرے کو یاد کریں اور خود سے یہ سوال پوچھیں کہ ہم جو یہ قدم اٹھانے جا رہے ہیں ، کیا وہ اُس غریب کے لئے معاون ہوگا؟ میں گاندھی جی کے اصولوں پر اپنے پختہ یقین کو دوہراتے ہوئے ، آپ سب سے یہ اپیل کروں گا کہ آپ روزانہ ، کچھ لمحوں کے لئے ہی صحیح گاندھی جی کی زندگی اور تعلیمات پر ضرور غور کریں۔‘‘
سابق صدر جمہوریہ نے اپنے الوداعی پیغام میں عوام سے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے پر دھیان دینے کی بھی اپیل کی اور انھوں نے کہا ‘‘آب و ہوا میں تبدیلی کا بحران ہماری زمین کے مستقبل کے لئے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے ۔ ہمیں اپنے بچوں کی خاطر اپنے ماحول، اپنی زمین، ہوا اور پانی کا تحفظ کرنا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اور روزانہ کی چیزوں کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنے درختوں، دریاؤں، سمندروں اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ دیگر سبھی جانوروں کے تحفظ کے لئے بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اولین شہری ہونے کے ناطے اگر مجھے اپنے ہم وطنوں کو کوئی مشورہ دینا ہے تو میں یہی صلاح دوں گا ۔‘‘
مکمل الوداعی پیغام یہاں پڑھیں: