دہلی آرڈیننس: اپوزیشن نے بی جے پی پر آئین کو ’بلڈووز‘ کرنے کا الزام لگایا، عام آدمی پارٹی اس کے خلاف سپریم کورٹ جائے گی

نئی دہلی، مئی 21: حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ہفتہ کے روز مودی حکومت پر ’’آئینی وفاقی فریم ورک کو بلڈوز کرنے‘‘ کا الزام لگایا، جب مرکز ایک آرڈیننس لایا جو مرکز کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر کو دہلی حکومت میں خدمات انجام دینے والے تمام نوکرشاہوں کی پوسٹنگ اور تبادلوں پر حتمی فیصلے کا اختیار دیتا ہے۔

صدر دروپدی مرمو کے ذریعہ جاری کردہ آرڈیننس، 11 مئی کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مؤثر طریقے سے نفی کرتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اروند کیجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی کے پاس پبلک آرڈر، پولیس اور اراضی کے محکموں کو چھوڑ کر باقی بیوروکریٹس پر قانون سازی کا اختیار ہے۔

ایک پریس کانفرنس میں کیجریوال نے کہا کہ یہ آرڈیننس غیر آئینی ہے اور سپریم کورٹ کو ’’براہ راست چیلنج‘‘ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہم اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ ’’مرکز نے یہ آرڈیننس عدالت عظمیٰ کے تعطیلات کے لیے بند ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی متعارف کرایا… میں دہلی میں بھی لوگوں کے پاس گھر گھر جاؤں گا اور AAP بھی اس آرڈیننس کے خلاف سڑکوں پر اترے گی کیوں کہ یہ دہلی کے لوگوں کے اختیارات کو چھینتا ہے۔‘‘

دہلی کے وزیر اعلیٰ نے اس آرڈیننس کو ’’وفاقی ڈھانچے پر حملہ‘‘ قرار دیا۔

انھوں نے اپوزیشن جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اس بل کو راجیہ سبھا میں پاس نہ ہونے دیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

وہیں کانگریس لیڈر اور سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی، جنھوں نے سپریم کورٹ میں دہلی حکومت کی جانب سے کیس لڑا تھا، کہا کہ یہ آرڈیننس آئین کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے کہا کہ مرکز کا یہ اقدام آئین کے وفاقی کردار اور احتساب اور جمہوری حکمرانی کے قواعد پر ’’براہ راست حملہ‘‘ ہے۔

پارٹی نے مزید کہا ’’یہ نہ صرف دہلی کے لوگوں اور حکومت سے متعلق ہے بلکہ مرکزی حکومت کی طرف سے آئینی وفاقی فریم ورک کو بلڈوز کرنے سے متعلق تمام شہریوں کی فکر ہے۔ اس کی مخالفت ہونی چاہیے۔ سی پی آئی (ایم) اسے واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘

نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے بھی کہا کہ یہ آرڈیننس ایک دھوکا ہے اور تعاون پر مبنی وفاقیت کی روح کے خلاف ہے۔

تاہم انھوں نے عام آدمی پارٹی پر یہ کہتے ہوئے سخت تنقید بھی کی کہ اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا اس وقت ’’خوشی سے ساتھ دیا‘‘ تھا جب 2019 میں مرکز نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت چھین لی تھی اور اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر منوج کمار جھا نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ مرکز کا یہ آرڈیننس تمام منتخب حکومتوں کے لیے ’’انتباہی اشارہ‘‘ ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کو حکومت کے اس اقدام کا نوٹس لینا چاہیے اور ایک مضبوط پیغام دینا چاہیے کہ حکومت ’’ہر چیز کو بلڈوز نہیں کر سکتی۔‘‘

تاہم بی جے پی نے اس کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ آرڈیننس شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔