بے حس کملا کا خواب غزہ کے معصوم لہو میں تحلیل
قصر مرمریں کے ساتھ پارلیمان پر بھی رپیبلکن کا قبضہ،نیلی دیوار اور سن بیلٹ کا مورچہ منہدم،تیسری قوت بننے کا ہدف حاصل نہ ہوسکا
مسعود ابدالی
اٹھتر سالہ ڈونلڈ جے ٹرمپ امریکہ کے47 ویں صدر چن لئےگئے۔ وہ نومبر 2016 میں امریکہ کے 45 ویں صدر منتخب ہوئے تھے۔ چنانچہ جناب ٹرمپ امریکی تاریخ کے دوسرے سابق صدر ہیں جو ہارنے کے چار سال بعد دوبارہ جیتے۔ اس سے پہلے جناب کلیولینڈ 1884میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison)نے ہرادیا۔ 1892 کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔تاہم یہاں فرق یہ ہے کہ صدر کلیولینڈ، صدر ہیریسن سے ہارے اور چار سال بعد انھیں ہی ہرایا جبکہ جناب ٹرمپ کو ہرانے والے صدر بائیڈن دوسری بار مقابلے سے پہلے ہی دستبردار ہوگئے۔ عمر کے اعتبار سے جناب ٹرمپ صدر بائیڈن کے بعد دوسرے معمر ترین رہنما ہیں۔جہاں تک ذاتی دولت کا تعلق ہے تو مالیاتی جریدے Forbesنے جناب ٹرمپ کی دولت کا تخمینہ 6 ارب 60 کروڑ لگایا ہے اور بلومبرگ کے مطابق انکی دولت کا حجم 7 ارب 70 کروڑ ڈالر ہے۔
جناب ٹرمپ اس اعتبار سے بھی مثالی ہیں ہے کہ انھیں دوبار امریکی کانگریس کی جانب سے مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی بار دسمبر 2019 میں الزام لگا کہ انھوں نے صدر ولادیمر زیلنسکی سے جو بائیڈن کی ان مالی بدعنوانیوں کا ثبوت طلب کیا تھا جسکے امریکی صدر، دورانِ نائب صدارت یوکرین میں مبینہ طور پر مرتکب ہوئے۔ استغاثہ کے مطابق یہ امریکی انتخابی مہم میں غیر ملکی مداخلت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
جب جنوری 2021 کو انتخابی ووٹوں کی گنتی کے دوران مشتعل ہجوم امریکی ایوان نمائندگان پر حملہ آور ہوا تو اسپیکر نینسی پلوسی نے ڈونلڈ ٹرمپ پر مظاہرین کو مشتعل کرنے کا الزام لگایا اور انکے خلاف ایک بار پھر مواخذے کی تحریک آئی۔ یہ دونوں تحریکیں کانگریس نے مسترد کردی۔
اسکے علاوہ جناب ٹرمپ کو یہ ‘اعزاز’ بھی حاصل ہے کہ موصوف مختلف نوعیت کے 32 الزامات میں مجازعدالت سے مجرم قرارپاچکے ہیں اور اس ماہ کی 26 تاریخ کو انھیں سزا سنائی جانی ہے۔ تاہم اب صورتحال بدل چکی ہے اور جج صاحب کی کیا جرات کہ وہ نومنتخب صدر کو سزا سنائیں؟ لہذا غالب امکان یہی ہے کہ پیشی سے پہلے ہی عدالتی کاروائی کو mis trail قرادیکر داخلِ دفتر کردیا جائیگا۔ انصاف دنیا میں کہیں بھی اندھا نہیں۔ قاضی و منصف سب دیکھتے اور حفظِ مراتب بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
اس ابتدائی گفتگو کے بعد نتائج کا جائزہ:۔
اس سے پہلے ہم کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ فیصلہ کن مقابلہ سات ریاستوں میں ہونا تھا۔ جن میں وسکونس، مشیگن اور پینسلوانیہ کو ‘نیلی دیوار’ کہتے ہیں۔ جیسے گدھا ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان ہے اسی طرح نیلا رنگ پارٹی کی شناخت ہے۔ ریپبلکن سرخ رنگ سے پہچانی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ ایک دوسرا مورچہ گرم و مرطوب موسم کی حامل sun beltریاستوں جارجیا، شمالی کیرولینا، ایریزونا اور نواڈا پر مشتمل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں صدر بائیڈن نے نیلی دیوار اور سن بیلٹ مورچے کا کامیابی سے دفاع کیا اور شمالی کیرولینا کے علاوہ تمام کی تمام ریاستوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدئے۔ اس بار ان تمام ریاستوں میں مقابلہ سخت تو تھا لیکن توقع تھی کہ اگر سن بیلٹ مورچہ پامال ہوگیا تب بھی نیلی دیوار محفوظ رہ جائیگی لیکن گنتی کے آغاز سے ہی خبریں کچھ اچھی نہ تھیں۔ ڈانلڈ ٹرمپ نے سن بیلٹ کی سب سے بڑی ریاست جارجیا کے ساتھ نیلی دیوار پر قبضہ کرکے 270 انتخابی ووٹوں کا ہدف جلد ہی حاصل کرلیا۔ نواڈا اور ایریزونا کے نتائج تادم تحریر مکمل نہیں ہوئے لیکن دونوں جگہ ڈانلڈ ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔ اس وقت کملا ہیرس کے انتخابی ووٹوں کی تعداد 226 ہے جبکہ 295 ووٹ جناب ٹرمپ کے کھاتے میں درج ہوچکے ہیں۔
ایوان صدر کے ساتھ کانگریس میں بھی مست ہاتھی نے لاغر ٹٹو کو کچل دیا۔ نتائج کے مطابق سو رکنی سینیٹ میں ایک آزاد رکن ملا کر ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس 44 نشستیں ہیں جبکہ اپنے حریف سے تین نشستیں چھین کر ریپبلکن کی تعداد 52 ہوچکی ہے۔ چار نشستوں پر ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔خیال ہے کہ گنتی مکمل ہونے تک دوحامی ارکان ملا کر سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کا پارلیمانی حجم 46 اور ریپبلکن ارکان کی تعداد 54 ہوجائیگی۔ جہاں تک ایوان نمائدگان (قومی اسمبلی) کا تعلق ہے تو اس 435 رکنی ایوان میں 209 نشستوں پر ریپبلکن جیت چکے ہیں، 191 نشستیں ڈیموکریٹس کے ہاتھ لگیں اور 35 نشستوں پر گنتی جاری ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ گنتی مکمل ہونے تک ریپبلکن پارٹی اکثریت کا نشان یعنی 218 عبور کرلیگی۔
نتائج بحیثیت مجموعی غیر متوقع نہیں کہ مقابلہ سخت تھا اور جائزوں کے مطابق کلیدی ریاستوں میں جناب ڈانلڈ ٹرمپ کو معمولی سی برتری حاصل تھی۔ تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی توقع سے زیادہ مہمل نکلی۔ اگر مجموعی ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو جناب ٹرمپ نے 2020 کے مقابلے میں 16لاکھ ووٹ کم حاصل کئے لیکن کملا ہیرس کاحال بہت ہی خراب رہا۔ چارسال پہلے انکی پارٹی نےآٹھ کروڑ12لاکھ ووٹ حاصل کئے اور اس بار یہ تعداد گھٹ کر چھ کروڑ 75 لاکھ رہ گئی۔
کملا جی کی خراب کارکردگی کی بنیادی وجہ غزہ نسل کشی کے معاملے میں انکی سنگدلانہ بے حسی ہے۔ چار سال پہلے ان ساتوں کلیدی ریاستوں میں بائیڈن کی کامیابی مسلمانوں کی مرہونِ منت تھی۔لیکن اس باراسرائیل کی اندھادھند حمایت نے مسلمانوں کو ڈیموکریٹک پارٹی سے بدظن کردیا۔ ایک سال پہلے 4 نومبر 2023 کو وہائٹ ہاوس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اکنا (ICNA) کے امیر ڈاکٹر محسن انصاری نے گرجدار آواز میں کہا تھاMr Biden you better pack your bags and leave the White House۔ بائیڈن بوریا بستر لپیٹ کر وہائٹ ہاوس سے نکل جاؤ۔ اللہ نے قلندر کی لاج رکھ لی اور ایک سال بعد صدربائیڈن کے ساتھ انکی لاڈلی بھی قصرِ مرمریں سے رخصت ہورہی ہیں۔ نتائج کے اعلان پر ایک فلسطینی خاتون نے جذبات سے رندھی آواز میں کہا’لگتا ہے کہ کملا کی پہلی خاتون امریکی صدر بننے کی خواہش غزہ کے معصوم لہو میں غرق ہوگئی۔کملا جی نے غزہ نسل کشی کیلئے اسرائیل کو bulletsدیں اور امریکی مسلمانوں نے Ballots کے ذریعے انکی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔
غزہ کے علاوہ عوامی ترجیحات کے ادراک میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی حتیٰ کہ رائے عامہ کاجائزہ لینے والے اداروں سے غلطی سرزد ہوئی۔ ماہرین کا خیال تھا کہ خواتین کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اسقاط حمل کی آزادی ہے یعنی میراجسم میری مرضی۔ امریکی خواتین میں ووٹ ڈالنے کا رجحان بھی زیادہ ہے، چنانچہ کملا انتخابی مہم کا سارا زور خواتین کے تولیدی حقوق پر تھا۔ اسی طرح تارکین وطن کے بارے میں ٹرمپ صاحب کے تحقیر آمیز روئے کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کا خیال تھا کہ ہسپانوی اور رنگدار اقلیتیں انکا ساتھ دینگی۔ اکثر لوگ ڈانلڈ ٹرمپ کو روسا اور سرمایہ داروں کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ کملا چونکہ خود مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں اسلئے انکا گمان تھا کہ سفید پوش اور غریب طبقہ انھیں اپنے مفادات کا محافظ جانتا ہے۔
اسکےمقابلے میں صدر ٹرمپ نے ہر طبقے کیلئے مختلف حکمت عملی اختیار کی۔ دیہی اور مضافاتی علاقے میں وہ سفید فام امریکیوں کو غیر ملکی تارکین وطن کے ‘امڈتے ہوئے سیلاب’ سے ڈراکر کہتے تھے کہ اگر امریکہ کی شناخت برقرار رکھنی ہےتو سرحدوں کی نگرانی سخت کرنی ہوگی یہ ہماری ثقافتی بقا کا سوال ہے۔ وسط شہر اور ہسپانوی آبادیوں میں معیشت کی بحالی اور ملازمت کے مواقع کی بات کرتے۔ تیل و گیس پیدا کرنے والی ریاستوں میں انھوں نے کنوؤں کی کھدائی اور پیداوار پر ماحول کے حوالے سے لگائی جانیوالی پابندیاں نرم بلکہ ختم کرنے کا وعدہ کیا۔ یہی وجہ ہے ٹیکسس، لوزیایہ اور اوکلاہوما میں انھیں زبردست کامیابی ہوئی۔ خواتین کے اجتماعات میں انھوں نے افراطِ زر اور مہنگائی کو ہدف بنایا۔ عرب اور مسلمان آبادیوں میں انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ غزہ و لبنان میں جنگ بند کرواکر امن و خوشحالی کیلئے کام کرینگے۔ ہر جگہ انھوں نے بہت فراخدلی سے مسلمانوں اور عربوں کے امن پسند روئے کی تعریف کی۔ ڈانلڈ ٹرمپ کا اصل زور اقتصادیات پر تھا اور وہ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ ڈانلڈ ٹرمپ ہی مہنگائی سے نجات دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بلاشبہ شکست سے دوچار کرکےامریکی مسلمانوں نے بائیڈن انتظامیہ اور کملا ہیرس سے بدلہ لے لیا لیکن موثر و منظم تیسری قوت بننے کاہدف حاصل نہ ہوسکا۔ عرب امریکی سیاسی مجلس عمل کے پلیٹ فارم سےیہ طئے ہواتھا کہ مسلمان اس بار گرین پارٹی کا ساتھ دینگے۔ لیکن ڈانلڈ ٹرمپ کی تقریروں اور کچھ سیاسی ترجیحات کی بنا پر مسلمانوں کی بڑی تعداد نے گرین پارٹی کے بجائے ڈانلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔مشیگن کے مسلم اکثریتی علاقے ڈیربورن (Dearborn)سےگرین پارٹی کی جل اسٹائن نے 22، کملا ہیرس نے 28 اور ڈانلڈ ٹرمپ نے 47 فیصد ووٹ لئے۔ گرین پارٹی کانام 38 ریاستوں کے بیلٹ پر موجود تھا اور پارٹی کی امیدوار ڈاکٹر جل اسٹائن نے مجموعی طور پر چھ لاکھ سے زیادہ ووٹ لئے جو کل ووٹ کا 0.4 فیصد ہے۔ اس مہم کی سب سے بڑی کامیابی ڈاکٹر بُچ وئر (Dr Butch Ware)کی شکل میں ایک عمدہ رہنما کی دریافت ہے. پچاس سالہ افریقی نژاد بچ ایک مستند مورخ اور جامعہ کیلی فورنیا سینٹا باربرا میں سماجی تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ سیرت النبی ﷺ پر انھوں نے کئی مقالے لکھےجن میں Walking Qur’an PBHMبہت مشہورہوا۔حالیہ انتخابات میں گرین پارٹی نے انھیں نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا تھا۔صدر ٹرمپ کی کامیابی سے عالم اسلام اور اقوام عالم پر کیا نتائج مرتب ہونگے اسکا ذکر ان شاء اللہ تفصیل سے ہوگا۔